اسلام آباد: ( اے یوایس )پاکستانی وزارتِ خارجہ نے افغانستان کی جانب سے اپنے سفیر نجیب اللہ علی خیل سمیت سفارتی عملے کو واپس بلانے کے فیصلے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس پر نظرثانی کی جائے گی۔گذشتہ روز افغان وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے ذریعے افغان سفیر کی بیٹی کے اسلام آباد میں مبینہ اغوا اور تشدد کے واقعے کی روشنی میں سفارتی عملے کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ‘افغانستان کی حکومت کی جانب سے اپنے سفیر اور سینئر سفارتکاروں کو واپس بلانے کا فیصلہ مایوس کن ہے۔
وزیرِ اعظم کی ہدایات پر اسلام آباد میں افغان سفیر کی بیٹی کے مبینہ اغوا سے متعلق اعلیٰ سطحی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ سفیر، ان کے خاندان اور پاکستان افغانستان کے سفارتخانے اور قونصل خانے میں موجود افراد کی سکیورٹی بڑھا دی گئی ہے۔”پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے افغان سفیر سے ملاقات کی اور حکومت کی جانب سے اس تناظر میں کیے جانے والے اقدامات پر روشنی ڈالی اور مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی تھی۔ ہم امید کرتے ہیں حکومتِ افغانستان اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گی۔’ادھر پاکستان کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے افغان سفیر کی بیٹی کے ’اغوا‘ پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔پاکستان کے نجی ٹی وی جیو کے ایک پروگرام میں شیخ رشید نے کہا: ’ایک لڑکی گھر سے پیدل نکلتی ہے۔ کھڈا مارکیٹ سے ٹیکسی لیتی ہے۔ ہم کہتے ہیں ہمارے پاس فوٹیج ہے وہ راولپنڈی جاتی ہے اور راولپنڈی سے دامن کوہ آتی ہے اور دامن کوہ سے تیسری ٹیکسی لیتی ہے۔ ہمارے پاس سارے ٹیکسی ڈرائیوروں کے رابطے ہیں۔‘
وزیر داخلہ نے اس سے پہلے ایک بیان میں کہا تھا کہ ابتدائی تحقیقات اور سیف سٹی کیمروں کی مدد سے پتا چلا ہے کہ وہ ’راولپنڈی کے ایک شاپنگ مال گئی تھیں‘ اور انھیں وہاں سے اسلام آباد کے سیاحتی مقام دامن کوہ چھوڑا گیا۔خیال رہے کہ سنیچر کو ایک بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ افغان سفیر نجیب اللہ علی خیل کی بیٹی کو نامعلوم مسلح افراد نے اغوا کرنے کی کوشش کی تاہم ملزمان ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے اور مبینہ طور پر تشدد کرنے کے بعد فرار ہو گئے۔اس واقعے پر پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں افغان سفیر کی بیٹی کا کہنا ہے کہ ٹیکسی میں ساتھ بیٹھے ایک شخص نے انھیں مارا پیٹا جس کے بعد وہ خوفزدہ ہو کر بے ہوش ہوگئی تھیں۔ تاہم انھوں نے بیان میں راولپنڈی یا اسلام آباد میں کسی مقام کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابتدائی طور پر واقعے کو اسلام آباد تک محدود سمجھا جا رہا تھا۔
