'Deployment of SFF has upset China immensely'تصویر سوشل میڈیا

ریسرچ اینڈ انالئسز ونگ (را) کے ایک سابق عہدیدار اور مرکزی وزار داخلہ میں تبتی امور پر سابق مشیر امیتابھ ماتھر نے کہا ہے کہ چین اس بات سے خوف زدہ ہے کہ تبت پریشان کن حالات کا علاقہ ہے اور جو شورش2008میں ہوئی تھی وہ دوبارہ سر اٹھا سکتی ہے۔1977کے بیچ کے انڈین پولس سروس افسر مسٹر ماتھر ستمبر2019تک حکومت ہند کی تبت پالیسی پر کام کرتے رہے۔ اس سے قبل وہ ایویشن ریسرچ سینٹر ،آر اینڈ اے ڈبلیو(را) کے ایویشن ونگ کی سربراہ رہے۔ مسٹر ماتھر تبتی امور پر بہت گہری دسترس رکھتے ہیں۔ریڈیف ڈاٹ کوم کی ارچنا مسیح کو ایک تفصیلی انٹر ویو میں مسٹر ماتھر نے ہندوستان کے ذریعہ حقیقی کنٹرول لائن پر تبتی سپاہیوں کی تعیناتی سے چین پر مرتب ہونے والے اثرات ہند چین تعطل میں تبتی پہلو پر اظہار خیال کیا۔ یہ معلوم کیے جانے پر کہ کیا وقت آن پہنچا ہے کہ اسپیشل فرنٹیر فورس( ایس ایف ایف) کے راز سے پردہ اٹھا دیا جائے انہوں نے کہا کہ اس بارے میں پہلے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور اس کے وجود سے اب سبھی واقف ہو گئے ہیں۔ اب اس میں راز کی کیا بات رہ گئی۔مجھے حیرت ہے کہ کیا اب کہنے سننے کی کچھ اور ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ میں پرانے مکتب فکر کا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اپنی فوجوں کے بارے میں کسی بات کا انکشاف کیوں کریں؟ ملک کو اپنی زیر کمان ایس ایف ایف جیسے ذرائع کو سنبھالنا چاہئے۔ ایس ایف ایف میں بھرتی، تعیناتی وغیرہ سے متعلق معلومات ایسی باتیں ہیں جنہیں خفیہ ہی رہنا اور رکھنا چاہئے۔اگر بالفرض محال دشمن اس سے واقف ہو بھی جائے تو انہیں ان کے مقام تعیناتی سے کیوں آگاہ ہونے دیا جائے۔اس کی حقیقت میں کوئی ضرورت نہیں۔ان سے جب اس ضمن میں سوال کیا گیا کہ چونکہ چوشول سیکٹر میں پی ایل اے کے خلاف فوجی جھڑپ میں ایس ایف ایف ملوث تھی تو آپ کے خیال میںچین پراس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہوں گے انہوں نے کہا کہ سوائے اس حقیقت کے کہ ایس ایف ایف میدان عمل میں ہے کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں تعینات ہے اور اسے کیا ذمہ داری سونپی گئی ہے۔اگر آپ تبتی سوشل میڈیا پڑھیں تو ایسا لگے گا گویا انہوں نے چین کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے۔

اگر آپ وہ خانگی حساب جو حکومت نے افشا کر دیا ہے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ ایس ایف ایف جوان کا اتفاق سے ایک بہت پرانی بارودی سرنگ پر پیر پڑ گیا تھا جس سے دھماکہ ہوا اور وہ ہلاک ہو گیا۔اس کی کامیابی سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ چین نے پہلے تو فوج کی و اپسی سے اس کی موجودگی کا اعتراف کیا اور پھر یہ واویلا کرنا شروع کر دیا کہ ہندوستان تبتیوں کو توپوں کے چارہ کے طور پر استعمال کررہا ہے۔میرا قیاس ہے کہ تبتی فوج کی تعیناتی سے وہ بوکھلا گیا ہے کیونکہ اس اقدام کے اثرات تبت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ چین اس بات سے تشویش میں مبتلا یا متوحش ہو جائے گاکہ تبتی فوجی جو دلائی لامہ کو پوجتے ہیں چین کے خلاف اس کارروائی میں حصہ لے رہے ہیں ماتھر نے کہا کہوہ یقیناً تشویش میں مبتلاہو جائیں گے کیونکہ خود تبت کے اندر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ ساٹھ سال بیت گئے،چین آج بھی تبت میں سخت ترین سلامتی اقدامات کر رہا ہے اور تبتیوں کی ایک کمشنری سے دوسری کمشنری میں نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ کئی دیگر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔یہ تمام نکات یہ حقیقت بیان کرتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ ایک مخدوش علاقہ ہے اور 2008میں جو شورش ہوئی تھی وہ دوبارہ ہو سکتی ہے۔ان معنوں میں میں سمجھتا ہوں کہ وہ بہت پریشان ہوں گے کہ یہ کیا ہو گیا۔جہاں تک عزت ماٰب کا تعلق ہے تو چین نے کبھی بھی دلائی لامہ کی طاق کو کم نہیں آنکا۔وہ محترم شخصیت ہیں اور اپنی ہجرت کے 61سال بعد بھی تبت اور تبت سے باہر ان سے عقیدت میں رتی برابر کمی واقع نہیں ہوئی۔دلائی لامہ کی تبت واپسی کے مطالبہ میں ڈھائی سو سے زائد خود سوزی کے واقعات کیے جا چکے ہیں۔ اس لیے چین کی تشویش اور فکر مندی فطری امر ہے۔یہ پوچھے جانے پر کہ آپ کیسے سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں جو تبتی مقیم ہیں وہ بجھی اسی نظریہ سے دیکھیں گے ماتھر نے کہا کہ تبتی سوشل میڈیا سے مجھے جو معلومات حاصل ہو رہی ہیں تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ یکے بعد دیگرے ویبینرز منعقد کر رہے ہیں۔بہت زیادہ جوش دیکھنے میں آرہا ہے۔آزادی کے موضوع پر بناگ دہل بولا جا رہا ہے اور نوجوان خاص طور سے زبردست جوش و خروش کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ہمیں انتظار کرنا اور دیکھنا چاہئے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ لیکن اس کی اہمیت اس حقیقت میں بھی مضمر ہے کہ سینٹرل تبتن ایڈمنسٹریشن کے صدر، سیک یانگ کا انتخابی عمل شروع ہو چکا ہے اور انتخابات آئندہ سال ہوں گے۔یہ معاملہ اس انتخاب میں ایک موضوع بنے گا۔

دیگر موضوع راہبوں کا معاملہ کے حوالے سے ہوگا۔عزت ماٰب دلائی لامہ کا ہمیشہ سے یہی موقف رہا ہے کہ تبتی معاملہ کا ایسا طویل مدتی اور پر امن حل نکالا جائے جس میں تبت کی خود مختاری اور نادر شناخت ، ثقافت، مذہب اور زبان کے تحفظ کی ضمانت ہو۔ جہاں ایک جانب تبتی عوام اور تارکین وطن چینیوں سے پریشان اور مایوس نظر آتے ہیں راہبوں کے چینی لوگوں کے ساتھ نہایت گہرے تعلقات ہیں۔ تبت سے ہمارے عوام تا عوام تعلقات اگرچہ 1959سے ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ہزاروں سال سے تبتیوں اور چینیوں میں بڑا گہرا رشتہ رہا۔تبتی مذہبی راہبوں کے، خاص طور پر کرما کاگیو اور ساکیا طبقوں کے ،چین کی سرزمین پر بہت زیادہ معتقدین ہیں۔ چینی شہنشاہ نے تیسرے کرن اپا کو سیاہ ہیٹ دیا تھا جو اب رومٹیک مانسٹی میں ہے۔ یہ معلوم کیے جانے پر کہ کیا آپ ہندوستان کی ون چائنا پالیسی میں کوئی تبدیلی پاتے ہیں ماتھر نے کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ ہماری چائنا پالیسی میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔چینیوں سے جو 2003میں جو معاہدے ہوئے ہندوساتن ان کا احترام کرتا ہے ( اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی چین کے دورے پر گئے اور تبت کو عوامی جمہوریہ چین کے ایک حصہ کے طور پر خود مختار خطہ تسلیم کیا ) جو کافی حد تک بڑی نازک پوزیشن تھی اور تبت کوع کبھی چین کا حصہ نہیں بتایا لیکن آج تبت چین کا حسہ ہے۔مٰں نہیں سمجھتا کہ ہماری پوزیشن میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔کوئی تبدیلی آنے کا مطلب چین کے ساتھ کیے گئے ہمارے کئی بین الاقوامی معاہدے کی تنسیخ و تجدید کرنا پڑ جائے گی۔اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک میرا ذہن کام کرتا ہے یہ وقت اس بات کے لیے نہیں ہے۔(جاری)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *