اسلام آباد: سابق فوجی حکمراں ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو سنگین غداری مقدمہ میں مجرم قرار دینے اور آئین کی دفعہ 6کے تحت موت کی سزاسنانے والی خصوصی عدالت کی تین ججی بنچ نے جمعرات کے روز فیصلہ کی تفصیل جار ی کر دی۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی والی اس تین ججی بنچ نے، جس کے دیگر دو جج سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبر اور لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم ہیں، 167صفحاتی فیصلہ میں جسٹس اکبر کا ایک اختلافی نوٹ بھی شامل ہے۔

جسٹس سیٹھ اور جسٹس کریم نے مشرف کو موت کی سزا دینے کی حمایت کی اور کہا کہ جو شواہد پیش کیے گئے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشرف جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔فیصلہ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس وقت کی کور کمانڈر وں کی کمیٹی بشمول ہمہ وقت مشرف کے آگے پیچھے رہنے والے وردی پوش لوگ ملزم کے قول و عمل میں برابر کے شریک ہیں ۔ ہمقانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ بھگوڑے /مجرم قرار دیے گئے کو گرفتار کرانے میں جہاں تک اور جو ہو سکتا ہے کریں۔

اور اس امر کو یقینی بنائیں کہ مجرم کو قانون کے مطابق سزاملے اور اگر وہ مردہ پایا جائے تو اس کی لاش کو گھسیٹتے ہوئے اسلام آباد کے ڈی چوک تک لائیں اور تین روز تک اسے لٹکائے رکھیں۔واضح ہو کہ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) حکومت نے مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمہ دائر کیا تھا کہ سابق فوجی ڈکٹیٹر نے نومبر 2007میں ماو¿رائے آئین ایمرجنسی نافذ کر دی تھی ۔

سابق فوجی سربراہ کے خلاف مارچ2014میں فرد جرم عائدکی گئی تھی لیکن پرویز مشرف نے اپنے اوپر عائد کیے گئے تمام الزامات کو خارج کیا تھا۔مارچ2016کو سابق صدر سپریم کورٹ کے حکم پر ایکزٹ کنٹرول لسٹ سے نام حذف کیے جانے کے بعد بغرض علاج پاکستان سے دوبئی چلے گئے۔چند ماہ بعد خصوصی عدالت نے انہیں اشتہاری مجرم قرار دے دیااور ان کی مستقل غیر حاضری کی وجہ سے ان کی املاک قرق کرنے کا حکم دے دیا۔

بعدا ازاں پرویز مشرف کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ بھی منسوخ کر دیا گیا۔اور اب حکمنامہ میں انہیں مردہ پائے جانے کی صورت میں پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے ڈی چوک تک لانے اور وہاں اسے تین روز تک لٹکائے رکھنے کو کہا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *