کابل:(اے یو ایس ) القاعدہ رہنما ایمن الظواہری کے امریکہ کے ایک ڈرون حملے سے ہلاک ہونے سے طالبان حکومت میں سکتے میں آگئی ہے۔ ان کے ہلاک ہونے سے امریکہ اور مغربی طاقتیں طالبان پر الزام لگا رہی ہے کہ انہوں نے دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور ایمن الظواہری جیسے دہشت گرد کو کابل میں پناہ دی ۔ وزیردفاع ملا یعقوب بار بار یہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے ڈرون حملہ کے کرکے بین الاقوامی کی خلاف ورزی کی ہے اور پاکستان پر بھی الزام لگا یا کہ وہ ایمن الظواہری کو مارنے کے لئے امریکہ کی مددکی اور ڈرون حملہ پاکستان سے کیا گیا ۔ حالانکہ انہو ںنے خود یہ تسلیم کیا کہ ان کے پاس کوئی پکا ثبوت نہیں ہے اور اسی وجہ سے دونوں ملکوں کے رشتوں میں تلخی آگئی ہے۔ پاکستان کے وزرات خزانہ نے کہا کہ ایسے الزامات لگانا تعلقات کو خراب کرسکتے ہیں ساتھ ہی انہوں نے افغانستان سے کہا کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کو استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔
الظواہری کے سر پر 25ملین ڈالر کا انعان تھا اور ان کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے امریکہ نے افغانستان کو منجمد فنڈس بحال کرنے پر روک لگائی ہے۔ ملا یعقوب کے بیان سے طالبان کے مختلف دھڑوںمےں اختلافات بھی پیدا ہوئے۔ امریکی فوج کے انخلاءکی ایک سال کی تقریب میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے شرکت نہیں کی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملا یعقوب کو ایسا بیان نہیں دینا چاہئے۔ افغانستانی فوج کے جنرل قاری فصیح الدین اس سے بیان سے ناخوش تھے ۔ملا یعقوب القاعدہ کے سربرہ ملا محمد عمر کے بڑے فرزند ہیں اور وہ ملا اخونزدہ کے جانشین بننے والے تھے لیکن ان میں وہ خصوصیات نہیں ہیں جو ان کے والد میں تھی ۔
ان کو حقانی گروپ سے بھی خوف لگ رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ افغانستان کے سابق حکومت کے عہدیدار وار خفیہ ا یجنسیوں کےساتھ ان کے رابطے بھی ہیں اور اسی وجہ سے انہو ںنے سابق حکومت کی 80فیصدی سے زیادہ ملازمین کو نئی حکومت میں جگہ دی ۔ امریکی فوجوں کی انخلاءمیں مولاعبدالغنی برادرنے نما یا رول ادا کیا ہے اور انہیں یہ خوف تھا کہ شاید ملا برادر ہی حکومت کی باگ ڈور سنبھالے گی لیکن وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تھے طالبان کو حکومت کو حاصل کرنے میں حقانی گروپ کا اہم رول رہا ہے۔