قادر خان یوسف زئی
دو تہائی سے جیتنا، بغیر اتحادیوں کے حکومت بنانا، نام و نشان مٹا وں گا یا پھر مقابلہ دور دور تک نہیں جیسے دعوے، عوام روز کسی نہ کسی جماعت سے سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں، لیکن دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو عوام کی موجودہ حالت کے حوالے سے ہی بلکہ اپنی جماعتوں میں کارکنان کے تحفظات سے بھی آگاہی (شائد) نہیں۔پاکستان میں انتخابات جیتنے کی روایت جیسی بھی رہی ہو، لیکن جب تک کسی بھی سیاسی جماعت کا کارکن اس سے مطمئن نہ ہو ، جلسے جلوس کی رونق بڑھانے کے لئے رنگا رنگ تقریبات و ترغیبات دے کر عوام کو جلسہ گاہ لانے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ عام سیاسی کارکن کا خواب، اپنے عہدے دارکے قریب ہونا، اپنی قیادت کی دور سے تصویر لینا اور اگر اس کو قیادت کے قریب آنے کا موقع مل جائے اور پھرا سٹیج پر چڑھ کر سیلفی مل جائے تو جیسے اس کی زندگی کے سارے ارمان پورے ہوگئے۔
تین مرکزی سیاسی رہنماؤں نے ایک ہی دن بڑے دعوے کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اگلی حکومت دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوگی تو دوسرے نے کہا کہ وہ چاروں صوبوں سے منتخب ہوکر اقتدار میں آئیں گے اوریہ بھی کہ بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے مخالفین کو شکست دیں گے۔ تیسرے نے کہا نام و نشان مٹا ڈوں گا، غرض ملک کی دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے بیشتر رہنماؤں کے بھی کم و بیش یہی دعوے ہیں۔ ان کے دعوؤں میں کتنی حقیقت ہے، اس سے قطع نظر یہ انتخابی چورن ہے، جو ہر سیاسی و مذہبی جماعت کو بیچنا ہوتا ہے، کیونکہ وہ سہانے خواب نہیں بیچیں گے تو سیاست کی دکان کیسے چلے گی۔
بات جب بلدیات کی آتی ہے تو دیکھنے میں تو یہی آیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں بلدیاتی انتخابات میں برادری نظام، جاگیر داری، وڈیرانہ ا، سرداری اور خوانین کا اثر رسوخ استعمال ہوتا ہے، جو جیت کے بعد سیاسی نمائندگی میں ڈھل کر کسی بھی جماعت کا حصہ کہلائے جاتے ہیں۔ خیر اس امر سے تو سب آگاہ ہیں، اس لئے انتخابات کسی بھی نوعیت کے ہوں اس کے لئے بلند بانگ دعوے کرنا بھی عادت اور انہیں سننا بھی عادت ثانیہ ہے۔ راقم وقتاََ فوقتاََ مختلفسیاسی جماعت سے وابستہ واقف کار کارکنان، عہدے دارن سے سیاسی ماحول پر تبادلہ خیال کرتاہے تو ان میں سے بڑی تعداد اپنے عہدے داروں سے مطمئن نظر نہیں آتی، حکمراں جماعت تحریک انصاف میں دو دہائیوں سے کارکن سے عہدے دار بننے والے ایسے کئی افراد کو مایوسی کے عالم میں کہتے دیکھا اور سناہے کہ غریب اور نظریاتی کارکنان کی کوئی قدر نہیں، پیسے والے اور اثر رسوخ کے حامل سرمایہ دار، سیاسی پارٹیاں بدل کر آنے والے چند دنوں میں اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جن کے لئے انہوں نے برسوں برس محنت کی ہوتی ہے،میرے رہائشی علاقے کے ایک ایسے ہی عہدے دار نے اپنی شکوؤں کی ’درد ‘ بھری داستان سنائی کہ جن لوگوں کو ہم نے ایم پی اے، ایم این اے بنانے کے لئے دن رات ایک کئے آج جب وہ ایک بڑے مقام پر ہیں تو ان کی رعونت و غرور ساتویں آسمان پر ہے۔
علاقے میں لوگ ہمیں جانتے ہیں، ووٹ کے لئے ہم ان سے وعدے کرتے ہیں، ان کا کوئی بھی مسئلہ ہو تو متاثرہ فرد اہل خانہ سمیت رات دو بجے گھر کا دروازے پر بیٹھ جاتے ہیں،فون بند نہیں کرسکتے کہ کارکنان یا عوام طعنے نہ دے کہ ان کی پارٹی اقتدار میں ہے تو اب اس سے فائدے حاصل کررہا ہوگا، اس لئے چھپ رہا ہے، ہمارا تو جینا مرنا اہل علاقہ کے ساتھ ہے، ایم پی اے، ایم این اے کو کیا معلوم ہے کہ فلاں محلے یا گلی کے مسائل کیا ہیں،عوامی مسائل ہم لے جاتے ہیں تو وہ ہم سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہوا، ایم این اے ایم پی اے بننے والوں کو جب بلایا جاتا ہے تو نخرے کرتے ہیں، پھر ان کا پروکوٹول بھی کرو، ان کے لئے ہزاروں روپوں کی پ±ر تعیش دعوت بھی،اور وہ تقریر جھاڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن سامنا تو ہمیں کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اس نظریاتی اور قدرے معقول سابق عہدے دار کو بخوبی جانتا ہوں اس لئے ان کی طویل داستان سن کر خاموش ہو جاتا ہوں کیونکہ میں سیاسی نہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم عہدے پر رہنے والے ایک معروف سیاسی شخصیت کے بھی گلے شکوے پیش کردوں کہ علاقے کے لئے دن رات ایک کرکے ترقیاتی منصوبے منظور کرائے انہیں تکمیل کے آخری حدوں پر لے گئے لیکن جب اس منصوبے کے افتتاح کا موقع آتا ہے تو انہیں بلایا تک نہیں جاتا بلکہ ان کے خلاف بیان بازی اور ان کی کردار کشی کی جاتی ہے، تاکہ تنظیمی انتخابات میں لابی کروائی جائے اور عہدے مل نہ پائیں، جس سے گروپ بندی کو فروغ ملتا ہے اور ایک پارٹی کے کارکنان منقسم ہوجاتے ہیں، جس کا نقصان پارٹی کو ووٹ منقسم ہونے کی وجہ سے پہنچتاہے، پارٹی بعد از شکست وجوہ پوچھتی ہے تو عہدے دار اور کارکنان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں۔ گروپ بندی کے نتیجے میں مفاد عامہ کا ایک ایک منصوبہ دس دس برس میں مکمل نہیں ہوپاتا، جب وہ منصوبہ مکمل ہوتا بھی ہے تو اس کی حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ کروڑوں روپوں کا فنڈ ایک ہفتے میں ہی ضائع ہوجاتا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے عہدے داروں کا بھی یہی گلہ ہے کہ جب حکومت میں تھے تو ان سے پوچھا بھی نہیں جاتا تھا، وزرا آتے تو ملاقات کے بغیر چلے جاتے، اب احکامات ملتے ہیں کہ کارکنان اور عوام کو اکھٹا کرو، تو کیسے کریں،ان کو اپنے مسائل کا حل چاہے تھا جو پورے نہیں ہوئے تو کارکنان ناراض ہیں یادوسری سیاسی جماعتوں میں چلے جاتے ہیں اور انہیں جو سخت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ الگ ہے۔
ان گنت مثالیں ہیں، یہ صرف نچلی سطح کا نہیں بلکہ بیشترمرکزی رہنماؤں کا بھی یہی حال ہے، کراچی پریس کلب پر پی ایس پی کے تمام مرکزی عہدے داروں نے احتجاجی کیمپ لگایا تھا لیکن کئی روز گذرنے کے باوجود انہیں عوام سے ویسا ردعمل نہیں ملا جس کی توقع تھی تو ایک مرکزی رہنما سخت مایوسی میں مجھ سے مخاطب تھے کہ دیکھو قادر بھائی، ہم عوام کے لئے سڑکوں پر بیٹھے ہیں، ان کے مسائل کے حل کے لئے ساتھ چاہتے ہیں لیکن ان کا رویہ دیکھ کر دل چاہتا ہے کہ سب چھوڑ دوں اور کیمپ سے اٹھ جاو¿ں، لیکن یہ سوچ کر رک جاتا ہوں کہ شائد انہیں کبھی احساس ہوجائے۔