Dissident Pakistani exiles in UK 'on hit list'تصویر سوشل میڈیا

لندن مقیم پاکستانی تارکین وطن کو ،جنہوں نے ملک کی طاقتور اور بااختیار فوج پر تنقید کی ہے، انتباہ دیاگیا ہے کہ انکی زندگیوں کا خطرہ لاحق ہے جس سے مطلق العنان حکومتوں کے ذریعہ یو کے میں غیر ملکی مخالفین کو نشانہ بنائے جانے ے حوالے سے نئی تشویش پیدا ہو گئی ہے۔برطانوعی سیکورٹی ذرائع کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے اس پر تشویش ہے کہ پاکستان جو خاص طور پر خفیہ معلومات کے معاملہ میں یو کے کا زبردست حلیف ہے سرزمین برطانیہ پر لوگوں کا ہدف بنانے کی تیاری کر سکتا ہے۔ آبزرور کو بتایا گیا ہے کہ پورے یورپ میں دیگر خفیہ اداروں نے پاکستانی مخالفین بشمول پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے حقوق انسانی کے کارکنان ،صحافیوں اور پشتونون کی نمائندگی کرنے والے ایک گروپ پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین کو تازہ انتباہ دیا ہے ۔
گذشتہ ماہ مشرقی لندن کے ایک شخص پر دوسروں کے ساتھ مل کر ایک جلا وطن پاکستانی بلاگر اور سیاسی کارکن احمد وقاص گوریا ساکن ہالینڈ کو قتل کرنے کی سازش کرنے کی فرد جرم عائد کی گئی تھی۔مشرقی لند ن کے علاقہ فاریسٹ گیٹ کے رہائشی 31سالہ محمد گوہر خان کو ہالینڈ سے واپسی پر لندن میں سینٹ پینکراس اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

مارک لیال گرانٹ نے، جو سابق یو کے ہائی کمشنر متعین پاکستان اور اقوام متحدہ میں کسی زامنے میں یو کے اعلیٰ سفارت کار رہ چکے ہیں ، کہا کہ اگر یو کے مقیم جلا وطنوں کو پاکستانی فوج کے عہدیداروں سے دھمکی ملے تو برطانوی حکومت کو اسے بہت سنجیدگی سے لینا چاہئے۔ اور اگر یو کے میں ان جلا وطنوں خاص طور پر صحافیوں کو دھمکیاں ملیں اور ان پر کوئی دباو¿ ڈالا گیا تو ایسی صورت میں میں توقع رکھتا ہوں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور حکومت برطانیہ اس کا نوٹس لے گی اور کوئی مناسب قانونی /یا سفارتی جوابی ردعمل ظاہر کر ے گی۔لیال گرانٹ نے ، جو یو کے کے سابق قومی سلامتی مشیر بھی ہیں، مزید کہا کہ ایسی کوئی بھی شہادت جس سے یہ معلوم ہو کہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ،جو فوج کا سیکورٹی بازو ہے، یو کے میں لوگوں کو پریشان کر رہی ہے تو اسے ہر گز بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے۔ اگر برطانیہ مقیم برطونوی شہری یا رہائشی قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے بود و باش اختیار کیے ہوئے ہیں تو آئی ایس آئی یا کسی بھی فرد و ادارے کے ذریعہ ہراساں کیے جاتے ہیں یا انہیں دھمکایا جاتا ہے تو حکومت برطانیہ یقیناً اس میں مداخلت کرے گی۔انہوں نے کہا کہ حالات جس طرح کروٹ لے رہے ہیں اس سے اسی امر کی عکاسی ہوتی ہے کہ روانڈا، تنزانیہ اور فلپائن سمیت کئی ممالک جیسی مطلق العان ممالک،جہاں یہ رجحان خوب پھل پھول رہا ہے ،نقادوں و مخالفین کو خاموش کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
جب سے عمران خان 2018میں فوج کی پشت پناہی اور مدد سے پاکستان میں بر سر اقتدار آئے ہیں وہاں کے انسانی حقوق کے پاس دستاویزی ثبوت ہیں کہ کس طرح صحافیوں کے خلاف جان لیوا حملے کرا کے آزادی اظہار رائے اور پریس کی آزادی کو ختم کیا جا رہا ہے۔اب تشویش یہ ہے کہ پاکستان نے اپنی سرحدوں کے اندر نقادوں اور مخالفین کو کچلنے کے بعد بیرون ملک مقیم نقادوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ایک لندن مقییم پاکستانی سیاسی سائنسداں، مبصر اور تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ انہیں میٹرو پولس سے عثمان وارننگ سے معروف ”جان کو خطرہ“ نوٹس موصول ہوا ہے ۔ ”میٹرو پولس کی انسداد دہشت گردی کمان نے کہا کہ اسے میر ی جان کا لاحق خطرے کی معتبر اطلاع ملی ہے ۔ اور یہ زندگی و موت کا سوال ہے۔“

گل بخاری نے ، جو ایک برطانوی پاکستانی یو ٹیوبر اور کالم نویس ہیں اور جنہوں نے پاکستانی فوج پر تنقید کی تھی 2018میں سلا متی دستوں کے ہاتھوں اغوا کیے جانے کے بعد فرار ہو کریو کے آگئگئی تھیں ،کہا ”وہ لندن میں اپنی جان خطرے میں محسوس کر رہی ہیں۔“بخاری کو، جو گذشتہ سال سے سیفٹی الارم بریسلیٹ کا استعمال کرتی ہیں ، میٹروپولس نے مشورہ دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا رہائشی پتہ نہ دیں۔صدیقہ بھی ان دیگر شخصیات میں شامل ہیں جنہیں یو کے پولس نے حفاظتی ہدایات دے رکھی ہیں۔ گذشتہ سال دو پاکستانی مخالفین کی پراسرار موت کے بعد سے یو کے کی پاکستانی جلاوطن برادری میں خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی ہے ۔ صحافی ساجد حسین ، جو بلوچستان میں حقوق انسانی کی خلاف ورزی بے نقاب کرتے رہے ہیں مارچ2020کو سویڈن کے اوپاسلہ میں لاپتہ ہوگئے اور دو ماہ بعدساحل دریا پر وہ مردہ پائے گئے۔ حسین کی دوست کریمہ بلوچ بھی ، جنہوں نے آزاد بلوچستان کے لیے مہم چلائی تھی،ٹورنٹو ، کناڈا میں ایک جھیل میں مردہ پڑی پائی گئیں۔اگرچہ سویڈن اور کناڈا کی حکومتیں اسے کوئی تخریب کاری یا قتل نہیں سمھتی لیکن دیگعر سماجی ادارے اسسے متفق نہیں ہیں۔ بلوچ کے شوہر حماد حیدر نے ، جو ایک برطانوی شہری ہیں کہا کہ وہ یورپ میں کود کو محفوظ نہیں سمجھتے ۔ جو بھی پاکستانی فوج پر تنقید کرتا ہے وہ بڑا شکار بن جاتا ہے۔ یورپی حکام کو اس قسم کی دھمکیوں کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔

گذشتہ سال افشا ہوجانے والے حکومت پاکستان کے ایک میمو میں الزام لگایا گیا تھا کہ یورپ و امریکہ مقیم متعدد پاکستانی صحافی فرضی ناموں سے غیر ملکی ابلاغی ذرائع کو پاکستان مخالف مواد بہم پہنچا رہے ہیں۔ اس میں مغربی یورپ میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہا اقلیتی فرقہ کا ایک صحافی بھی شامل ہے۔ آبزرور سے اپنا نام صیغہ راز میں رکھنے کی شرط پر اس صحافی نے کہا کہ پاکستان کی فوج کی انٹیلی جنس برانچ کی جانب سے اسے بھی ایک انتباہی نوٹس ملا ہے۔انہوںنے کہا کہ برطانیہ میں بھی حکام نے اس کی جان کو خطرے کی تصدیق کر دی ہے۔ اس جلاوطن صحافی نے کہا کہ گذشتہ چھ تا آٹھ ماہ سے انہوں نے کسئی صحافتی کام نہیں کیا ہے کیونکہ انہیں جو قسم کی خطرناک دھمکیاں ملی ہیں اس نے انہیں اپنے پاؤں کھینچ لینے پر مجبور کر دیا۔ صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی جلا وطن پاکستانی صحافیوں کی نگرانی کرنے کے حوالے سے بہت پریشان ہے۔کمیٹی کے اسٹیون بٹلر نے کہا کہ ہم بہت سے ایسے کیسز کے بارے میں جانتے ہیں جو عام نہیں کیے گئے۔

عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ اس قسم کی دھمکیاں صرف پاکستان کی فوجی یا انٹیلیجنس سروسز سے ہی مل سکتی ہیں۔پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے معروف پاکستانی صحافی طٰحہٰ صدیقی نے، جو 2018میں اسلام آباد میں اگوا کیے جانے سے بال بال بچ گئے تھے، کہا کہ پاکستان میں ان کے گھر والوں اور ان کی سسرال کے لوگوں کو مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے۔وہ کئی بار ان کے کنبے والوں کے پاس پہنچ چکے ہیں اور خود کو آئی ایس آئی کا بتاتے ہیں۔ انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے سے کہہ دو کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ فرانس میں رہائش اختیار کر لینے سے محفوظ ہو گیا۔ ان کی اہلیہ ، جو فوٹو جرنلسٹ ہیں، سارہ فرید کا کہنا ہے کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ مخالفین کے لیے زمین تنگ ہو چکی ہے اور اور ملک میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں جب کبھی طٰحہٰ سے فون ہر بات نہیں کر پاتی ہوں تو پہلا خیال مجھے یہی آتا ہے کہ ایسا پاکستان میںہوا کرتا تھا ۔پڑوسی ملک جرمنی میں ، عبداللہ عباس نے جو بکوچستان کی ہو من رائٹس کونسل کے سکریٹری اطلاعات ہیں، کہا کہ بلوچ اور حسین کی موت نے انہیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیا ہے۔اس سے مجھے حتیٰ کہ یورپ میں بھی لاپتہ کیے جانے یا مار ڈالے جانے کا میرے اندر پرانا خوف عود کر آیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ برلن میں تنہا نکلتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔جرمنی میں ہی اورنگ زیب خان زلمے نے جو پشتون ٹائمز کے جلاوطن ایڈیٹر ہیں اور ان لائن نیوز پورٹل میں پاکستان کے شمال مغرب قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات اجاگر کرتے رہتے ہیں ، کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ایجنٹوں کے ذریعہ نگرانی اور تعاقب کیے جانے سے لوگ مجھ سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں یہاں تک کہ خود میرے دوست بھی میرے ساتھ سیلفی لینے اور اسے آن لائن پوسٹ کرنے سے ڈرنے لگے ہیں کہ کہیں ان کی بھی نگرانی نہ شروع ہو جائے اور ا کہیں پاکستان واپسی پر ان سے بھی جوابدہی نہ کی جائے۔

حکومت پاکستان سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے” ایک ذمہ دار ملک کے ناطے پاکستان بین الاقوعامی قانون کے اصولوں اور قاعدوں کا احترام کرتا ہے اور بین ممالک روابط کے حوالے سے سے قانونی و سفارتی حدود کا احترام کرتا ہے۔ کسی کو بھی خواہ ووہ کسی بھی ملک کا شہری ہو پاکستان کا اپنا شہری ہو اور کسی بھی بہانے کہیں بھی مقیم ہو کسی قسم کی دھمکی دینے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ غیر مصدقہ الزامات پاکستان اور اس کے اداروں کی شبیہہ داغدار کرنے کے لئے اس کے خلاف گمراہ کن تحریک کا ایک جزو ہیں۔
چونکہ آپ ہندوستان سے ہمیں جوائن کر رہے ہیں تو ہم کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں۔200سال قبل جب سے ہم نے گارجین کی اشاعت شروع کی ہے اس کی اعلیٰ معیار کی صحافت کی ایک دنیا قائل ہے ۔ غیر یقینی کیفیت بحران، یکجہتی و امید کے لمحات میں سب ہمارا رخ کرتے ہیں ۔180ممالک میں 1.5ملین سے زائد ہمارے قارئین نے ہمیں بیباک کھلا اور نہایت درجہ آزاد رکھنے کے لیے حال ہی میں مالی امداد بہم پہنچانے کا قدم اٹھایا ہے ۔ ہمارا کوئی شئیر ہولڈر نہیں ہے نہ کوئی ارب پتی ہمارا مالک ہے۔ ہم اپنا ایجنڈا خود تیار کر سکتے ہیں اور مالی و سیاسی اثر و رسوخ و دباؤ سے آزاد قابل اعتماد و بھروسہ مند صحافت مہیا کرتے ہیں ۔اور گمراہ کن اطلاعات کے پھیلاؤ کا ڈت کر مقابلہ کرتے ہیں۔ اور اگر ضرورت پڑے تو ہم کسی قسم کے خوف کے بغیر اسے چیلنج اور تحقیقات کر سکتے ہیں۔
ہت سے دوسروںکے برعکس ، گارجین صحافت ہر ایک کے لیے پڑھنے کے لیے دستیاب ہے ، قطع نظر اس کے کہ وہ پیسہ دے کر خرید کرپڑھنے کے قابل ہو۔ ہم ایسا کرتے ہیں کیونکہ ہم معلوماتی مساوات میں یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد عالمی واقعات پر نظر رکھ سکتی ہے ، لوگوں اور برادریوں پر ان کے اثرات کو سمجھ سکتی ہے اور بامعنی کارروائی کرنے کی ترغیب پا سکتی ہے۔ہم بلیک لائیوز میٹر سے لے کر نئے امریکی انتظامیہ، بریکزیٹ اور عالمی وبا سے دنیا کے بتدریج نجات پانے تک دنیا کے نازک اور اہم معاملات پر اپنے قارئین کو جامع، بین الاقوامی نظریہ سے واقف کرتے ہیں۔ ہم ماحولیاتی ایمرجنسی پر فوری اور با معنی رپورٹنگ کے لیے اپنی عزت برقرار رکھنے کے پابند ہیں اور حیاتیاتی ایندھن کی کمپنیوں کے اشتہارات کو مسترد کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور2030تک صفر اخراج تک کی کامیابی کی ایک راہ متعین کر چکے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *