نئی دہلی: نیوز پورٹل دی پرنٹ کو معلوم ہوا ہے کہ 25مارچ کو افغانستان کے دارالخلافہ کابل میں ایک گوردوارے پر حملہ میں ملوث تین خود کش بمباروں میں شامل تیسرا بمبار کیرل کے شہر کسار گوڈ کا رہائشی ہندوستانی شہری نہیں ہے۔ ماہرین نے محمد محسن عرف ابو خالد الہندی نام کے 21سالہ مشتبہ کو جو تین خود کش بمباروں میں شامل تھا، ڈی این اے جانچ کرائی ۔جس کے بعد معلوم ہوا کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں بلکہ افغان شہری ہے۔
اس ضمن میں ایک رپورٹ ہندوستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کو بھیج دی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ خود کش بمبار ہندوستانی نہیں ہے ۔ علاوہ ازیں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کو بھی اس سے مطلع کر دیا گیا۔واضح ہو کہ25مارچ کو تین بندوق بردار گوردوارے میں گھس گئے تھے جہاں انہوں نے عبادگت میں مصروف سیکڑوں افراد پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس میں کم از کم25 زائرین شہید ہو گئے۔ مارے گئے سکھ زائرین میںایک ہندوستانی بھی شامل تھا۔
داعش کی افغان شاخ دولت اسلامیہ خراسان صوبہ (آئی ایس کے پی) نے اس بہیمانہ واردات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔داعش سے وابستہ عمق خبر رساں ایجنسی نے بندوق برداروں میں سے ایک کی تصویرجاری کی تھی جس کے ہاتھ میں ایک56رائفل تھی اور اس کی انگلی ”توحید “ کے اقرار واظہارکے طور پر اٹھی ہوئی تھی۔یہ داعش دہشت گرداکثر و بیشتر اپنے کاز کے طور اسے ایک علامت کے طور پر استعمال کرتے تھے۔تفتیشی ایجنسیوں کو شک ہے کہ یہ تصویرکیرل کے کسار گوڈ کے رہائشی محسن کی ہے۔جس نے مبینہ طور پر2016میں داعش میں شمولیت اختیار کی تھی۔
چونکہ ایک ہندوستانی غیر ملکی سرزمین پر مارا گیا تھا اوربمباروں میں سے ایک مشتبہ ہندوستانی تھا اس لیے ہندوستان کے این آئی اے نے کابل حملہ کی تفتیش کے لیے اپنا پہلا سرحد پار کیس درج کیا تھا۔ لیکن اب جب کہ اس کا علم ہو گیا ہے کہ تیسرا بمبار افغان تھا اس سے تحقیقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔اس صورت حال سے اس حالیہ قیاس پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے جس میں 3اگست کے جلال آباد جیل حملہ میں ، جس میں29افراد ہلاک ہوئے،ملوث بمباروں میں سے ایک کیرل میں کسار گوڈ کا ہی رہائشی ہے سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
ہندوستان میں تفتیشی ایجنسیوں کا خیال تھا کہ یہ بمبار کالوکیٹیا پوریائیل اعجاز ہے جو حیدر آباد سے اسی گروپ کے ساتھ جس میں محسن تھا، افغانستان میں خراسان صوبہ کے لیے روانہ ہوا تھا اور اسی وقت سے دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) کے ساتھ کام کر رہا تھا۔لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ سچ نہ ہو کیونکہ فوج کے ذرائع کے مطابق جلال آباد حملہ میں داعش کے نہیں حقانی نیٹ ورک کے ملوث ہونے کی علامات تھیں۔حقانی نیٹ ورک ایک افغان چھاپہ مار باغی گروپ ہے جو امریکی قیادت والی ناٹو افواج اور افغان حکومت کے خلاف لڑائی میں ہر قسم کے چھوٹے بڑے ہتھیار استعمال کرتا ہے۔
حقانی گروپ طالبان کا اتحادی ہے۔ذرائع نے بتایا کہ پورے افغانستان میں یہ حملے حقانی نیٹ ورک اور طالبان ہی کر رہے ہیں اور انہیں داعش خراسان صوبہ (آئی ایس کے پی)سے موسوم کیا جارہا ہے۔ایک ذریعہ نے بتایا کہ داعش ننگر ہار میں جو کبھی اس کا محفوظ ٹھکانہ ہوا کرتا تھا،اپنی گرفت کھو چکا ہے۔اس کو زیادہ تر لشکر طیبہ نے تباہ کیا ۔یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ حملے واقعتاً دولت اسلامیہ فی العراق و الشام (داعش) نے ہی انجام دیے ہیں۔اسی ذریعہ نے یہ بھی بتایا کہ داعش میں بھرتی کیے گئے ہندوستانیوں کو لڑنے نہیں بھیجا جاتا بلکہ زیادہ تر ڈاکٹروں اور انجینروں کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ذرائع نے بتایا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستانیوں کو لڑنے والے دستے میں شامل ہی نہیں کیا جاتا ۔
یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ داعش ہندوستانیوں کو یہ مشن انجام دینے بھیجے گا۔ اور ان بمباروں میں سے ایک کے ہندوستانی ہونے کی اطلاع دراصل پروپگنڈے کے جزو کے طور پر قصداً اڑائی گئی تھی۔اس کا مقصد ہندوستان کو منظر عام پر لانا اور افغانستان کے خلاف کھڑا کرنا تھا ۔ابھی تک تو ہر کوئی سوچتا رہا تھا کہ کابل گوردوارے کا حملہ آور ایک ہندوستانی تھا لیکن اب اس امر کی تصدیق ہو گئی ہے کہ وہ ہندوستانی نہیں تھا۔یہ بات بھی پھیلائی گئی کہ جلال آباد حملہ میں شامل ایک حملہ آور کیرل کا باشندہ تھا اور پیشہ سے ڈاکٹر تھا۔وہ بھی محض قیاس آرائی تھا۔ ذرائع نے کہا کہ جب تک اس کی تصدیق نہ ہوجائے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ ذرائع نے مزید کہا کہ اگر حقانی نیٹ ورک کی حملہ آور کے طور پر شناخت ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا جائے گا۔