کوئٹہ:(اے یو ایس) وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے مچھ واقعہ کے خلاف احتجاجاً دھرنا دینے والے ہزارہ برادری سے درخواست کی ہے کہ وہ شہیدوں کی تدفین کر دیں اور اسے وزیر اعظم کی آمد سے مشروط نہ کریں۔کوئٹہ میں وفاقی وزرا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم ہزارہ برادری کے ساتھ حال ہی میں پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے بہت افسردہ ہیں، داعش جیسے عناصر اس طرح کے واقعات کر کے پاکستان میں چیزوں کو خراب کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے عناصر پاکستان، پاکستانی قوم اور یہاں کے امن کے دشمن ہیں اور اس میں بہت سارے ہاتھ ملوث ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں آج ہی بیرون ملک سے واپس لوٹا ہوں اور ہم دھرنے والوں سے بات کریں گے، یہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں ان سے بات کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے۔جام کمال خان نے کہا کہ دہشتگردی کے حوالے سے حکومت بلوچستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور تمام لوگ پہلے دن سے اس کی پوری کوشش کررہے ہیں، پاکستان سے باہر مقیم لوگ ہماری کوششوں کو شاید نہیں سمجھ سکتے لیکن ہزارہ ٹاو¿ن، مری آباد اور کوئٹہ میں رہنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ چیزوں کو انہوں نے کس طرح سے بہتر ہوتے ہوئے دیکھا۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں امن کے قیام میں بہت کامیابی ملی اور صورتحال بہتر ہوئی لیکن اب یہ اس طرح کا واقعہ ہو گیا ہے، ہم نے اس شہر اور بلوچستان کے حوالے سے بہت کام کیے جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم بلوچستان، کوئٹہ اور ہر کمیونٹی کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں لیکن بہت پاکستان، بلوچستان اور اس کمیونٹی سے دشمنی رکھنے والے یہ چیزیں پسند نہیں ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان اور پاکستان میں اس طرح کی چیزیں ہوں تاکہ وہ انہیں ایک رنگ دے کر خرابی کی طرف لے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صوبے اور شہر نے 10 سال بہت مشکل وقت میں گزارے خصوصاً ہزاری برادری اور کوئٹہ کے لوگوں نے بڑی مشکلات کا سامنا کیا اور کوئی نہیں چاہتا کہ اس طرح کے دور کی دوبارہ جھلک بھی نظر آئے۔وطن واپس پہنچتے ہی احتجاج کرنے والوں سے ملاقات نہ کرنے کے حوالے سے سوال پر وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ ہم یہاں اس لیے آئے ہیں تاکہ پوری ہزارہ برادری سے یکجہتی کا اظہار کرسکیں، ہم کسی گروپ یا سیاسی جماعت سے یکجہتی کا اظہار نہیں کررہے بلکہ پوری برادری سے اس کا اظہار کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ہم دھرنا اور احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ساتھ لواحقین کے پاس بھی جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ وفاق کی حیثیت سے وزیر اعظم، صدر مملکت اور وزرا بھی آئیں گے لیکن میری لواحقین سے درخواست ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد آپ تمام مسائل کا تعلق ہم سے ہے اور ہم ہی ذمے دار بھی ہیں، ہم نے ان تمام مسائل کا حل خود تلاش کرنا ہے۔
جام کمال خان نے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان میں ایک کمیونٹی کے ساتھ ہوا ہے، جس طرح وزیر اعظم کی ذمے داری پورے پاکستان میں ہر جگہ ہے، اسی طرح بلوچستان کے لیے بھی ہے اور وزیراعظم بلوچستان ضرور آئیں گے لیکن میری درخواست ہے کہ تدفین کو اس سے مشروط نہ کریں۔ان کا کہنا تھا کہ تدفین ہماری مذہی ذمے داری ہے، ہم جیسے بھی ہیں ہم مسلمان ہیں تو ہم پر دینی فرائض بھی ہیں تو ان دینی فرائض کو پورا کرتے ہوئے ہم اپنی ذمے داریاں پوری کریں، پھر وزیر اعظم کو بھی اپنی ذمے داری پوری کرنی ہو گی، وزیر اعلیٰ کو بھی کرنی ہو گی، دیگر وزرا کو بھی کرنی ہو گی ۔
اس موقع پر ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ اور مشیر کھیل و ثقافت عبدالخالق ہزارہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم لواحقین سے ملے، وہ انتہائی غمزدہ ہیں ۔بلوچستان شعیہ کانفرنس کے سیکریٹری جنرل جواد رفیعی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستانی اور بلوچستانی ہیں، ہمارے لوگوں کو ماضی میں بھی بے دردی سے قتل کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے شیعہ، پٹھان، پنجابی، ہزارہ اور ا±ردو بولنے والوں کو قتل کیا گیا، ہمارے شہر کی کوئی مسجد ایسی نہیں جہاں شہدا کی فاتحہ نہ ہوئی ہو، مسلسل واقعات کو نسل ک±شی سمجھتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مچھ میں حال ہی میں لوگ واپس اپنے علاقوں میں لوٹے ہیں اور مچھ میں کام کرنے والے کان کن بے چینی و خوف کا شکار ہیں جبکہ ہمارے سرکاری ملازمین، مزدور اور طلبہ پریشان ہیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔