واشنگٹن: (اے یوایس )امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ جنگ سے تباہ حال شام میں انسانی ہمدردی کے تحت دی جانے والی امداد کو سیاسی موضوع بنانے سے گریز کیا جائے اور وہاں خوراک اور دیگر امداد کی فراہمی کے لیے سرحدی گزر گاہیں کھولی جائیں۔امریکی وزیر خارجہ کا اشارہ روس اور شام کے صدر بشار الاسد کی جانب تھا، جنہیں، بلنکن کے بقول، اسپتالوں اور امدادی سامان کی رسد کے لیے استعمال ہونے والی سرحدی گزر گاہوں کے نزدیک حملوں میں “حصہ لینے یا حملوں کے جواز تلاش کرنے” کی کوششیں بند کرنی چاہئیں۔
خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق اینٹنی بلنکن بلنکن نے، سلامتی کونسل اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے 10 برس سے جاری شام کے تنازع کے لیے کسی سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیا۔ سلامتی کونسل کی صدارت اس مہینے امریکہ کر رہا ہے۔بلنکن نے شام میں عوام کی مصیبتوں اور دکھوں کا ذکر کرتے ہوئے سلامتی کونسل کے ارکان سے کہا کہ وہ شام کے عوام کی مشکلات کا اندازہ لگانے کے لئے اپنے بچوں کو ذہن میں رکھیں۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی حقیقی اور با معنی قدم اٹھانے کے لیے کونسل کے اراکین اپنے دلوں میں مشترک انسانیت کو نہیں ڈھونڈ پاتے۔
انہوں نے کہا ہمارے درمیان موجود اختلافات کے باوجود، شام کے عوام کی مدد کے لیے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا، یہ سب کی ذمہ داری ہے اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو سب کے لیے شرمندگی کا باعث ہو گا۔ان کے بقول، انسانی ہمدردی کے تحت ملنے والی امداد کو سیاسی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اس پر لاکھوں شامی باشندوں کی زندگی کا دار و مدار ہے اور وہ سلامتی کونسل سے امید باندھے انتظار کر رہے ہیں۔سلامتی کونسل کا یہ ورچوئیل اجلاس ایک ایسے وقت پر منعقد ہوا ہے، جب پیر کو برسلز میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین کی میزبانی میں شام کے بارے میں شروع ہونے والی کانفرنس میں بین الاقوامی امدادی کمیونٹی کی جانب سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شام کے لئے جمع کی جانے والی امداد ضرورت سے کم رہے گی۔
سلامتی کونسل کے اجلاس میں اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی سے متعلق امور کے سربراہ، مارک لوکاک کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک دہائی سے جاری جنگ کی وجہ سے شام کو پہنچنے والے گہرے معاشی نقصان میں گزشتہ ایک سال کے دوران مزید شدت آئی ہے، اور یہ صرف عالمی وبا کی وجہ سے نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں شام میں امداد کی ضرورت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، اور اگر حالات کو مزید بد تر ہونے سے بچانا ہے تو اس کے لئے امدادی اداروں کو چار اعشاریہ دو ارب ڈالر کی مزید رقم درکار ہوگی، جبکہ پانچ اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی رقم خطے کے ان ملکوں کو درکار ہونگے، جو شام کے مہاجرین کو پناہ فراہم کئے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ “مزید تباہی سے بچنے کے لئے مزید رقم درکار ہوگی، ورنہ نتائج تباہ کن اور ڈرامائی ہو سکتے ہیں”بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی سربراہ ہینیریٹا فار نے کہا کہ شام میں جاری بدترین مالی بحران کی وجہ سے “ملک کی نوے فیصد آبادی غربت کا شکار ہے، اور اب نوے فیصد بچوں کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد کی ضرورت ہے”۔