واشنگٹن: (اے یوایس) امریکہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد سینیئر امریکی اور طالبان عہدیداروں کی پہلی باضابطہ ملاقات ‘دو ٹوک اور پیشہ ورانہ’ تھی۔ ملاقات میں واشنگٹن نے اس بات کا بھی اعادہ کیا کہ طالبان کو ان کے قول پر نہیں بلکہ فعل و عمل پر پرکھا جائے گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ ہفتے کے آخر میں دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں امریکی وفد نے سکیورٹی اور دہشت گردی کے خدشات اور امریکی شہریوں، دیگر غیر ملکی شہریوں اور افغانوں کے لیے محفوظ انخلا کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق پر، بشمول افغان معاشرے کے تمام پہلوو¿ں میں خواتین اور لڑکیوں کی بامعنی شمولیت پر توجہ مرکوز رکھی۔انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں نے ‘امریکہ کی جانب سے براہ راست افغان عوام کو مضبوط انسانی امداد کی فراہمی’ پر بھی تبادلہ خیال کیا۔نیڈ پرائس کے بیان کے مطابق ‘امریکی وفد کے ساتھ بات چیت دو ٹوک اور پیشہ ورانہ تھی جبکہ اس بات کا بھی اعادہ کیا گیا کہ طالبان کو ان کے الفاظ پر نہیں بلکہ اعمال پر پرکھا جائے گا۔’انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ کیا کوئی معاہدہ طے پایا ہے۔
سنیچر کو قطر کے ٹیلی ویڑن نے افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ کے حوالے سے بتایا کہ طالبان کے نمائندوں نے امریکی وفد سے کہا کہ وہ افغان مرکزی بینک کے اثاثہ جات پر سے پابندی ہٹائیں۔طالبان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے یہ بھی کہا کہ امریکہ افغانوں کو کورونا ویکسین پیش کرے گا اور دونوں فریقوں نے دونوں ممالک کے درمیان ایک نیا باب کھولنے پر تبادلہ خیال کیا۔
خیال رہے کہ بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے جمعہ کے روز ر ائٹرز کو بتایا تھا کہ امریکی وفد طالبان پر دباؤ ڈالے گا کہ وہ مغوی امریکی مارک فریریز کو رہا کریں۔ایک اور اولین ترجیح طالبان کو اس وعدے پر قائم رکھنا ہوگا کہ وہ افغانستان کو دوبارہ القاعدہ یا دیگر شدت پسندوں کا گڑھ نہیں بننے دیں گے۔11 ستمبر 2001 کو امریکہ پر حملوں کے بعد القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو حوالے کرنے سے انکار کرنے پر امریکی قیادت میں حملے کے 20 سال بعد طالبان نے اگست میں افغانستان میں اقتدار واپس لے لیا۔امریکی عہدیداروں کا کہنا تھا کہ ہفتے کے آخر میں ہونے والی ملاقات طالبان کے ساتھ ‘عملی مشاورتوں’ کا تسلسل ہے نہ کہ ‘گروپ کو تسلیم کرنے یا قانونی حیثیت’ دینے کے بارے میں ہے۔
