محمدقمرانجم قادری فیضی
طنزومزاح کسے کہتے ہیں، اردو ادب میں طنزومزاح کو عموماً یکساں معنوں میں لیا اور ایک ساتھ استعمال کیا جاتاہے، حالانکہ طنز اور مزاح میں فرق ہے، دونوں کی اپنی حدود ہیں، لیکن اس کے باوجود اکثر ایک دوسرے کے متوازی بھی چل رہے ہوتے ہیں، اور بعض اوقات تو ان کی سرحدیں ایک دوسرے سے ایسے ملی ہوتی ہیں کہ ان کو الگ کرنا دشوار ہو جاتا ہے طنز۔سے مراد طعنہ، ٹھٹھہ،تمسخر یا رمز کے ساتھ بات کرنا ہے،جب کہ مزاح سےخوش طبعی مذاق یا ظرافت مراد لیا جاتاہے، عام طور پر طنز اور مزاح کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں الحاصل، ایسی تحاریر جو آپ کو ہنسنے پر مجبور کردیں، اور اس تحریر میں تنقید کا جامہ پہنا دیا جائے پھر بھی قاری ہنسنے اور کھلکھلانے پر مجبور ہوجائے طنز ومزاح کہلاتی ہے، اردو ادب کے مقبول طنز ومزاح نگار یہ ہیں، عزیز نیسن، مشتاق یوسفی ،ابن صفی ،ابن ریاض، ابن انشائ ، پطرس بخاری، رتھ ناتھ سرشار، شفیق الرحمن، وغیرہ[وکی پیڈیا[اردو نثر میں طنز ومزاح کا سرمایہ مختصر ہونے کے باوجود نہایت قابلِ قدر ہے طنز اور ظرافت کے جتنے روپ ممکن ہیں وہ سب اردو نثر میں پائے جاتے ہیں خواہ وہ کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں ،ہماری نثر میں ضرور مل جاتے ہیں، اسی طرح پست اور بلند ہر سطح کے نمونے ہمارے ادب میں موجود ہیں، چنانچہ عوام اور خواص دونوں کے دل بستگی کے سامان کی یہاں کمی نہیں، مزاح کا مقصد لطف اندوزی ہے تو طنز میں اصلاح کا مقصد کار فرما ہوتاہے، پست درجہ کسی کو نیچا دکھانے کے لئے اور خالص مزاح اعلیٰ درجے کی چیز ہے نیز قاری اس سے بھر پور لطف وانبساط حاصل کرتا ہے لیکن خالص طنز ،جس میں مزاح کی آمیزش نہ ہو محض دشنام بن کے رہ جاتاہے، دراصل انسان ایک ہنسنے والا جانور ہےخدائے تعالی نے انسان کو کئی نعمتوں سے نوازا ہے ان میں ایک عظیم نعمت ہنسی بھی شامل ہے ،ہنسی احساس برتری کا نتیجہ ہوتی ہےدوسروں کی کمزرویاں یا اپنی پچھلی کوتاہیوں کے سبب وجود میں آتی ہیں، الحاصل طنزومزاح ایک معاشرے کی برائیوں، کمیوں، خامیوں کو اجاگر کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، دور حاضر میں بطور ادیب اور مزاح نگار جن مشہور ومعروف ادباء ، مزاح نگاروں اور کالم نگاروں نے اپنی تحریروں سے ادبی علمی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنایا ہے ان میں ایک اہم اور ممتاز نام مشہور کالم نگار ڈاکٹرمحمدقائم الاعظمی علیگ صاحب(ساکن۔ اعظمی کلنک برجمن گنج ضلع مہراج گنج یوپی ) کا بھی ہے نقوش طنزومزاح (ترتیب- محمدقمرانجم قادری فیضی) نامی کتاب آپ کی پہلی کاوش ہے جو شائع ہوکر منظر عام پر آکر اردوادب کے حلقوں میں ادباء،نقاد،علماء مشائخ اور ارباب علم وفن سے دادوتحسین حاصل کرکے کافی پزیرائی بھی حاصل کرچکی ہے۔اس کتاب کا تعلق، دینی، مذہبی،تاریخ وسیر، اصلاحی،اور تحقیق وجستجو نیز سفرناموں کے ساتھ ساتھ شخصی خاکوں سے بھی ہے اور ادب کی معروف صنف مزاح نگاری سے بھی ہے، اور اس کتاب میں بہت سے ایسے واقعات وحالات کا بھی ذکر کیا گیا ہے،جس کا علم ان کے علاوہ صرف اسی شخص کو تھا،جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔اگر خود ستائی کی تمنا مزاح نگار کو ہوتی تو بہت سے ایسے واقعات کا ذکر قطعی طور پر کرتا ہی نہیں۔لیکن انھوں نے اس طرح کے واقعات کو ضمنی طور پر بیان نہیں کیا بلکہ کتاب کا ایک اہم حصہ بنایاہے۔
ڈاکٹرمحمد قائم الاعظمی علیگ صاحب کی یہی متانت و سنجیدگی ان کے فن کی بنیاد ہے۔ورنہ ایسے خاکہ نگاروں کی کمی نہیں جو خاکہ ،خاک اڑانے کے لئے لکھتے ہیں اس سے وقتی اور عارضی سرخروئی تو حاصل ہوجاتی ہے مگر یہ چیزیں دیرپا نہیں ہوتیں۔تحریر زبان کا عکس ہوتی ہے۔اور ہوتا یہی ہے کہ اصل ختم ہو جاتا ہے اور عکس باقی رہ جاتا ہے۔اور آنے والی نسلیں اسی عکس سے اپنی علمی پیاس بجھاتی ہیں۔کتنے ہی ایسے عکس ہمارے سامنے ہیں،جو ہماری علمی لیاقت کو پروان چڑھانے میں اپنا غیر معمولی کردار ادا کر رہے ہیں۔اس تناظر میں اگر اس کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو ایک ایک حرف اسی عکس کے مانندہے،جس میں مصنف نے لوگوں کو چلتا پھرتا پیش کر دیا ہے۔یہاں ایک بات اور عرض کرتا چلوں کہ خاکہ نگار نے جس اسلوب کا سہارا لیاہے،اس نے کتاب کی اہمیت میں اور اضافہ کر دیا ہے اس کتاب کے ایک ایک صفحے کو پڑھتے جائیں،کہیں کوئی رکاوٹ کا احساس تک نہیں ہوتا ،ایسا لگتا ہے کہ دریا بہہ رہا ہے،اور بہتے ہوئے پانی کے ساتھ کچھ ایسے ذرات بہہ رہے ہیں،جس کا آنکھیں دور تک تعاقب کرتی ہیں۔یہ کتاب اسی ذرے کے مانندہے کہ جب تک کتاب کا آخری صفحہ پڑھ نہ لیا جائے،اس وقت تک تجسس کی ایک عجیب کیفیت برقراررہتی ہے۔اس کتا ب میں شامل تمام مضامین کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کو قلم کاری پر کافی عبور حاصل ہےآپ نے کہیں بھی مزاح نگاری کے حدود کو تجاوز نہیں کیا ہے۔خاکہ ہر صورت خاکہ ہی رہا،کہیں بھی سوانح نگاری کی سر حدوں میں داخل نہیں ہوا۔چونکہ خاکہ نگاری میں خاکہ نگار کی ذہنی وسعتوں کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ خاکہ نگاری تاریخ اور تخیل سے یکساں تعلق رکھتی ہے۔یہاں اگرہم غور کریں تو صاف اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے جس شخص کو بھی موضوعِ گفتگو بنایا ہے تواس کےواقعات ،سوانح،خارجی شواہدات کے ساتھ ساتھ اپنے تاثرات اور قیاسات سے بھی مدد لی ہے۔خاکے میں یہی چیز سب سے اہم ہے جس سے دلچسپی اور بڑھ جاتی ہے۔اس نوع کی بہت سی خصوصیات ہیں جو قاری کو کتاب کے مطالعہ کے لیے متوجہ کرتی ہیں۔
نئے پڑھنے والوں کے لیے یہ کتاب یقیناً دل لگی اور دلچسپی کے ساتھ ساتھ معلومات کا اہم ذریعہ ثابت ہو گی.شروع کے100 صفحات کرداروں کے تانے بانے اور پہچاننے میں گزر جاتے ہیں۔اس کے بعد کے صفحات میں کرداروں کے مکالمات اور مزاج سے ہم آہنگی پیدا ہوتی ہےاس کتاب میں ایسے دلکش اور دلچسپ مضامین شامل کئے گئے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ اپنے آپ کو ہنسنے سے روک نہیں سکتے ہیں جیسے ،مان یا مت مان میں تیرا مہمان•ایک جان مشاعرہ کےنام •علی گڑھ کے مچھر•ہندوستان میں سلسلوں کا تصور• تذکرہئ ِ رشوت خوران ہندوستاں• چندساعت درمیانِ مچھراں•داستانِ غم خوردگان شوہراں•تذکرہئ ِ روزہ خوران ماہ رمضاں• سسرال ایک حسین تصوراور ایک تلخ تجربہ• اور اس کتاب کی جان،حضرتوا•قصہّ تیس مار خان• پانچ ٹانگ کا گدھا•جھاڑو اور جوتے کی جدید افادیت اور ان کا سائنٹفک طریقہء ِ استعمال اور ایسے ہی بہترین اور طنزومزاح پر مبنی سنیکڑوں مضامین کا بہترین مجموعہ”نقوش طنزومزاح ” جہان ادب میں نمایاں مقام حاصل کر چکاہے جنہیں آپ خلوت میں پڑھیں گے توتبسم زیرِلب محفل میں پڑھیں گے تو بزم طرب اور قہقہوں کا سماں بندھ جائے گا، ڈاکٹر محمدقائم الاعظمی علیگ کو وہ ملکہ حاصل ہے کہ وہ قاری کو کتاب کے ساتھ جڑنے ہر مجبور کر دیتے ہیں۔”اردو طنزو مزاح کی تاریخ میں ڈاکٹر محمد قائم الاعظی علیگ صاحب کی حیثیت درخشاں ستارے کی ہے،خوش طبعی، شوخی اور بے تکلفی ڈاکٹرمحمدقائم الاعظمی علیگ کی مزاح نگاری کی اہم خوبیاں ہیں۔ طنز کی کاٹ ان کے مزاح میں شامل ہوتی ہے۔جھاڑو اور جوتے کی جدید افادیت اور ان کا سائنٹفک طریقہ استعمال، کی نفسیات سے بھی انھوں نے بھرپور واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے محاورے اور اشعار میں چابک دستی سے کام لیا ہے۔اس مضمون میں ہندوستانی تہذیب کی رواداری اور دل شکنی سے گریز کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔
جب تک لوگ زندہ ہیں یہ مضمون بھی زندہ رہے گا۔حساسیت کو بیان کرنا کوئی ان سے سیکھے. ایک جادو ہے،ڈاکٹرمحمدقائم الاعظمی علیگ کے قلم میں..یہ جادو آہستہ آہستہ قاری کے دماغ پر اپنی گرفت مضبوط کرتا ہے. جب میں نےڈاکٹرصاحب کی کتاب “نقوش طنزومزاح” کا مطالعہ کیا، میں کئی دن تک طنزومزاح کی تپش میں جلتا رہا،طنزومزاح کی آگ سے ہاتھ سینکتا رہا. لفظوں کے کومل احساس میں کھویا رہا۔۔۔. میں نے اس کتاب کو کئی بار پڑھا، مگر ہر بار نئی چاشنی ملی، بہرحال۔۔ان سب باتوں کے باوجود مصنف قاری کو متوجہ کرنے میں خاصا کامیاب رہا ہے۔مجموعی طور پر کتاب پر گرفت بہتر لگی مصنف کا اسلوب جاندار ہے اور پڑھنے والے کو گرفت میں رکھتا ہے۔ادبی اعتبار سے آغاز سے اختتام تک قاری خود کو ایک تسلسل سے مضامین کے کرداروں کے درمیان چلتا پھرتا محسوس کرتا ہے۔کچھ واقعات ایسے بھی ہیں کہ قاری بے اختیار اپنی ہنسی روک نہ پائے اور ہونٹوں پر تبسم لائے نہیں رہ سکتا جیسے کہ، حضرتوا، اور قصہ تیس مار خان، اس سین کو پڑھتے ہوئے کھو جائے۔کبھی کبھی ہونٹوں پر ہنسی کے پھوارے چھوٹ جاتے ہیں تو کبھی جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں شروعات کے سو صفحات تو اٹھنے ہی نہیں دیتے۔کئی بار آنکھوں میں غیر محسوس نمی در آتی ہے اور کئی بار تو پورے وجود میں ارتعاش محسوس ہوتا ہے۔
ای میل:qamaranjumfaizi@gmail.com