Each of us equally responsibleتصویر سوشل میڈیا

قادر خان یوسف زئی

ہماری زندگی پر ہمارے اپنے خیالات و نظریات کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں، ہم اس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے، صدیوں کے جمود نے ہمارے غورِ، فکر و عمل کو کھو دیا ہے، بہت زیادہ آرام زنگ لگادیتا ہے، یعنی اگر ہم اپنی ذہنی قوتوں اور صلاحیتوں سے کام لینا چھوڑ دیتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد ہماری قوت غور و فکر اس قابل ہی نہیں رہتی کہ ہم اپنی عقل و فہم کو بروئے کار لاسکیں، اپنے لئے مقصود و منزل کا تعین کرسکیں، نیک و بد میں حد امتیاز قائم کرسکیں، بس سنی سنائی باتوں اور بغیر تحقیق یقین کرلینے کی روش نے کہ سب مقصد و منزل سے بے خبر ایک دوسرے کے پیچھے چلے جاتے ہیں، سوشل میڈیا میں تواتر کے ساتھ ویڈیو لیک، پ±رتشدد واقعات، خواتین کی بے حرمتی، ٹارگٹ کلنگ اور ماورائے قانون کے واقعات رپورٹ ہورہے ہیں، ہر نیا دن ایک نئی الم ناک کہانی لئے آتا ہے، اس وقت میری مراد خصوصیت سے اپنے معاشرے سے ہے، عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ جرم کرنے والے صرف چند لوگ اور دیکھنے والے سیکڑوں ہوتے ہیں، اسی طرح موبائل پر ویڈیو بنانے والے بریکنگ نیوز کے خبط میں مبتلا کسی بھی اخلاقی و سماجی حدود سے بالاتر ہوکر سوشل میڈیا میں چٹ پٹی خبر دینے کی عادت ثانیہ کے باعث، سامنے ہونے والی ناانصافی کو روکنے سے گریز کی راہ اختیار کرتے ہیں، ہتھیاروں کی موجودگی میں نہتے انسان کا مقابلہ کرنا خطرناک ہوتا ہے، لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ خواتین کو چوری کے الزام میں برہنہ کرنے کے واقعے اور اس جیسے دیگر قبیح واقعات میں مسلح گروہ نہ ہونے کے باوجود بے ضمیری اور احساس سے عاری، تماش بینوں نے ہمارے معاشرے کی تباہی کا ایسا نظارہ پیش کیا جو شرم سے سر جھکا دیتے ہیں۔سماج کا ایسا رویہ کیوں ہوگیا، اس پر طویل بحث ہوتی رہی ہے ، لیکن اب جو کچھ ہونے لگا ہے ایسا ماضی میں شاذ و نادر اس وقت دیکھنے میں آتا تھا جب اشرافیہ طبقے کے وڈیرے، سردار، جاگیردار، سرمایہ کار یا خوانین اپنے علاقوں میں اپنے قانون کے نام پر غریب افراد کے ساتھ ظلم کرتے تھے، لیکن اب تو جسے دیکھو، مدعی بھی خود، منصف بھی اور جلاد بھی بن جاتا ہے۔

ایک ریاست کے اندر ان گنت ریاستیں بن چکیں، قانون کا جو نام نہاد خوف ہوا کرتا تھا، اب تو لگتا ہے کہ وہ بھی نہیں رہا۔ انسانی زندگی میں قانون کے احترام کی اہمیت کیا ہے، یہ محتاج بیان نہیں، جس معاشرے میں قانون کا ڈر اور احتساب کی گرفت کا تصور نہ رہے تو وہ سماج کبھی بھی آرام و سکون نہیں حاصل کرسکتا، مرض کی تشخیص کے بغیر علاج ممکن نہیں، صحت حاصل کرنے کے لئے کڑوی دوا پینی ہی پڑتی ہے، زخم کے لئے نشتر کی بھی ضرورت پڑتی ہے، اسی طرح ریاست کا رِٹ قائم کرنے کے لئے طاقت کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ مانند ایک گھر کے ہے، یعنی اپنا گھر اپنا ہی ہوتا ہے، غریب کو اپنی جھونپڑی میں جو آرام ملتا ہے وہ اس کے لئے کسی راجہ کے محل سے زیادہ ہے۔ اسی طرح معاشرے میں جب قانون کی درست سمت کا احساس ہوتا ہے تو کوئی بھی بے خوف کسی بھی وقت کہیں بھی کسی بھی پہر آجا سکتا ہے۔ ریاست کا کام معاشرے کو گھر کی طرح ایک ایسا مقام بنانا ہوتا ہے جہاں گھر والوں کو ہر طرح کی سہولت، بے فکری، سکون اور اطمینان حاصل ہوسکے، اسی تمثیل میں ریاست کو ماں بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ ماں اپنی ہر اولاد کو یکساں تصور کرتے ہوئے ان کی درست پرورش کی ذمہ داری لیتی ہے۔ہمیں معاشرے کا ایک فرد ہونے کے ناتے سمجھنا ہوگا کہ قانون کی اطاعت نہ کرنے سے ہمیں کہیں بھی سکون میسر نہ ا?سکے گا، عدم برداشت کے رویے اور قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے کی روش کا شکار معاشرے کا کوئی بھی فرد کسی بھی صورت، خود بھی کسی نہ کسی شکل میں مصیبت کا شکار بن سکتا ہے۔ ہم اپنے، اپنے عیال اور مستقبل کے معماروں کے لئے اپنی جانوں کو شدید مشکلات میں بھی گرفتار کرلیتے ہیں، تاکہ اپنے خاندان کو سکون و آرام پہنچاسکیں،سکون وہ شے یا وہ جذبہ ہے جس کی تلاش میں انسان ہمیشہ سرگرداں نظر آتا ہے اور اگر اس کو اپنے گھر میں سکون نہ میسر آسکے تو پھر وہ گھر سے باہر اس کی تلاش کرتا ہے۔ ہمیں اسی معاشرے میں اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے رہنا و جینا بھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ امن و سکون کو قائم رکھنے کی واحد ذمہ داری صرف ریاست کی ہے، یا پھر ہم پر بھی کچھ فرائض عائد ہوتے ہیں۔ اس جہانِ رنگ و بو میں معاشرے کے ہر فرد کے لئے کائنات رب نے میدان عمل تجویز کردیا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کے لئے فضیلت پیدائش و جنس کے اعتبار سے نہیں بلکہ مدارج کا تعین اعمال سے مقرر فرمایا، فلاحی معاشرے کے لئے ہر فرد کو ایک دوسرے کے تعاون اور ہمدردی، ایثار و خدمت کی ضرورت پڑتی ہے اور ا?پس کی فہم و تفہیم کے بغیر امن و سلامتی کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوسکتی۔ ریاست کو امن و سلامتی اور آنے والے اور موجودہ دونوں نسلوں کی پرورش و تربیت کی اہم ذمہ داری سونپی گئی ہے، ہمیں ریاست کی رِٹ سے انکار یا خودساختہ قانون بناکر اپنی عدالتیں سرراہ لگاکر ، خود سزا و جزا دینے کا اختیار لینے کا کوئی حق نہیں۔معاشرے میں امن و سکون اور قانون کی عمل داری کو تسلیم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آہنگی ، نظریات اور بنیادی اختلافات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش کو ختم کردیں اور منفی سرگرمیوں سے گریز کریں۔ مختلف نظریات اور خودساختہ ماورائے قانون سر راہ عدالتیں لگانے کی روش دراصل تنگ نظری کا وتیرہ ہے۔ قانون کی درست سمت کا تعین ہونا بھی ضروری ہے اور اس پر ذاتی مفاد کے بجائے اجتماعی ترجیحات قوم کے عظیم مفاد میں ہے، اگر قانون اپنی درست کے بغیر عمل داری چاہتا ہے تو اس سے بھی اختلافات بڑھتے ہیں اور احترام ِ جذبات کے بجائے ہر وقت مباحثے، طعن و تشنع، تند خوئی اور سخت کلامی کے مظاہرے شروع ہونے سے پوری فضا مکدر ہوجاتی ہے۔ اب فیصلہ کرنا رہ جاتا ہے کہ کیا معاشرے میں بگاڑ کا ذمہ دار کوئی ایک فریق ہے؟ یہ تلخ حقیقت ہے، ہمارا معاشرہ بہت بگڑ چکا، معدودے چند قریباً ہم سب یکساں ذمہ دار ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *