اسلام آباد : (اے یو ایس) پاکستانی پارلیمنٹ میں مشترکہ اجلاس میں ا لیکشن ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن کے ارکانِ اسمبلی ایوان سے واک آو¿ٹ کر گئے۔ قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے اسے ‘پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ دن’ قرار دیا ‘جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے’ جبکہ پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو نے قوانین کی منظوری کو سپریم کورٹ سمیت ہر فورم پر چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مشترکہ اجلاس کے دوران ایک قانونی تنازع یہ بھی کھڑا ہوا کہ حکومتی بل پاس کرانے کے لیے ایوان میں اس وقت موجود اراکین کی اکثریت ہی درکار ہے یا پھر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبران کی تعداد ملا کر اکثریت درکار ہو گی۔
مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کا کہنا تھا کہ اس وقت ایوان میں جتنے لوگ موجود ہیں، ان کے ووٹوں سے ہی فیصلہ ہو جائے گا جب کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے رولز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا مشترکہ اجلاس میں ترمیم کی منظوری کے لیے دونوں ایوانوں میں اکثریت درکار ہے اور اگر حکومت کے پاس 222 ووٹ نہ ہوں تو قانون منظور نہیں ہو سکتا۔اس بات پر سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ اس معاملے میں آئین کو دیکھا جاتا ہے نہ کہ رولز کو اور انہوں نے قانون سازی کے معاملے پر گنتی جاری رکھنے کا حکم دیا۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق اس اجلاس میں کل 27 بل منظوری کے لیے پیش کیے گئے جن میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے علاوہ کلبھوشن یادیو اور عالمی عدالت انصاف سے متعلق بل، اینٹی ریپ بل 2021 اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپورشن ترمیمی بل بھی شامل ہیں۔ان مجوزہ بلوں میں سب زیادہ متنازع انتخابی اصلاحات کا معاملہ تھا جس پر حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان ایک واضح خلیج نظر آئی۔
قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف نے اس اجلاس سے خطاب میں مشترکہ اجلاس کو موخر کر کے انتخابی اصلاحات پر مکمل مشاورت کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر حکومت الیکٹرانک ووٹنگ کا قانون منظور کروا لیتی ہے تو وہ آج سے ہی آئندہ الیکشن کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رہے ہیں۔مشترکہ اجلاس کا آغاز بدھ کو ایک گھنٹے کی تاخیر سے ہوا توا سپیکر قومی اسمبلی نے بابر اعوان کو آئٹم ٹو یعنی الیکشن ترمیمی بل کے تحت الیکٹرانک ووٹنگ کا بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی دعوت دی تو بابر اعوان نے جواب دیا کہ اپوزیشن اس معاملے پر آپ سے بات کرنا چاہتی ہے اس لیے اسے فی الحال موخر کر دیا جائے۔اس کے بعد اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کہا کہ پارلیمان کی روایات کی دھجیاں اڑا کر قانون کو زمین بوس کرواناغلط بات ہے۔ ’حکومت کا مشاورت کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ گزشتہ اجلاس کو موخر کرنے کا مقصد ووٹ پورے کرنا اور اتحادی پارٹیوں کو منانے کے لیے وقت حاصل کرنا تھا۔‘ شہباز شریف نے کہا کہ وہ اپوزیشن اراکین کو داد دیتے ہیں کہ وہ حکومتی دباو¿ میں نہیں آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’سوچ بہت محدود ہے کہ بلز کو بلڈوز کیا جائے لیکن انھیں عوام سے ووٹ ملنا مشکل ہے اسی لیے مشین کے ذریعے کسی طریقے سے سلیکٹڈ حکومت کی عمر درا کرنا چاہتے ہیں ۔‘انھوں نے ای وی ایم کو ’ایول اینڈ وشیئس مشین‘ قرار دے دیا اور کہا کہ ’حکومت کی نیت میں فتور ہے اس لیے کالے قوانین پاس کرانا چاہتے ہیں۔ اس کا کیا مقصد ہے؟ کچھ ایسا ہو جائے کہ عوام کے پاس نا جانا پڑے اور ای وی ایم ان کا مقصد پورا کر دے۔‘شہباز شریف نے کہا کہ جو ادارہ شفاف الیکشن کرانے کا ذمہ دار ہے ان کے اعتراضات کے باوجود حکومت الیکشن قوانین میں تبدیلی کرنا چاہتی ہے۔قائدِ حزبِ اختلاف نے اسپیکر اسمبلی سے کہا کہ وہ اس ایوان کے نگراں ہیں اور اگر انھوں نے ان بلز کو بلڈوز ہونے دیا تو تاریخ اور عوام انھیں معاف نہیں کرے گی۔ اس پر اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ’میں کوئی کام آئین اور قوانین کے خلاف نہیں کروں گا۔‘شہباز شریف نے اپنی تقریر کے اختتام پر حکومتی بینچوں میں موجود ’باضمیر‘ اراکین سے درخواست کی کہ وہ ان کا ساتھ دیں اور اس قانون کو دفن کر دیں۔
وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے قائد حزب اختلاف کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’آج ایسی تاریخی قانون سازی ہو گی جو ماضی کی غلطیاں دور کر کہ مستقبل میں شفاف الیکشن کی بنیاد رکھے گی۔‘ان کا کہنا تھا کہ حکومت ’کوئی کالا قانون نہیں لانا چاہتی بلکہ ماضی کی کالک دھونا چاہتی ہے‘۔وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت نے عجلت میں یہ اجلاس اپوزیشن پر مسلط نہیں کیا۔ ’گیارہ تاریخ کو اس اجلاس کی تاریخ رکھی گئی جسے موخر کیا گیا۔ صرف اس لیے کہ ہمارے چند ساتھیوں کے سوالات تھے جنھیں دور کرنے کے لیے اجلاس کو موخر کیا گیا اور ان کو قائل کرنے کے بعد دوبارہ اجلاس بلایا گیا۔خیال رہے کہ حکومت نے اس سے قبل اپنے اتحادیوں، بالخصوص مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے انتخابی اصلاحات کے بل پر تحفظات کے بعد گذشتہ ہفتے طلب کیا گیا پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا تھا۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ای وی ایم ایک ’ایول وشیئس مشین نہیں بلکہ یہ مشین ان ایول ڈیزائنز کو دفن کر دے گی جو آج تک الیکشن کو متنازع بناتی رہے ہیں‘۔
شاہ محمود قریشی کے جواب کے بعد اسپیکر نے جب چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کو تقریر کی دعوت دی تو انھوں نے ا سپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’کرنا آپ نے وہی ہے جو آپ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس ایوان سے جھوٹ نہ کہا جائے۔‘بلاول بھٹو نے کہا کہ ن لیگ نے اپنے دور میں الیکشن پر ایسی قانون سازی کی تھی جس پر اس وقت کی تمام اپوزیشن جماعتیں بشمول تحریک انصاف بھی متفق تھیں۔’اگر آپ ہمارے ساتھ مل کر قانون سازی کرتے تو اگلے الیکشن متنازع نہیں ہوتے اور یہ وزیر اعظم عمران خان کی کامیابی ہوتی لیکن جب آپ الیکشن کمیشن اور اپوزیشن کے اعتراضات کے باوجود ووٹنگ مشین کا قانون پاس کروانے کی کوشش کریں گے تو ہم آج سے اگلے الیکشن کو نہ ماننے کا اعلان کرتے ہیں۔‘بلاول نے کہا کہ ’ہم الیکشن کمیشن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور جب تک ان کے اعتراضات رہیں گے ہمارے بھی اعتراضات رہیں گے۔ آپ کی کوشش ہے کہ الیکشن کمیشن کے اختیارات چھین کر نادرا کو دے دیے جائیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ حکومت یکطرفہ، زبردستی، اپنے طریقے کی قانون سازی کرنا چاہتی ہے اور ’اگر حکومت نے یہ قانون پاس کر بھی لیا تو ہم عدالت جائیں گے۔ ہم نے آئین بنایا ہے اور ہم اس آئین کی پامالی کو عدالت میں چیلنج بھی کریں گے اور شکست بھی دیں گے۔‘
بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی ووٹنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ہم بھی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق اور نمائندگی کا حق دینا چاہتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں جیسے آزاد کشمیر میں نمائندے بیرون ملک کشمیریوں کو نمائندگی دیتے ہیں ہم بھی ویسا ہی طریقہ اپنا لیں۔ایسے نہیں ہو سکتا کہ ووٹ پیرس میں ڈلے اور نتیجہ ملتان کا بدل جائے۔‘ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اپوزیشن اس ایوان کو استعمال کر کے اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے تحت لے جانے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دے گی۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’ اسٹیٹ بینک کو پارلیمان اور عدالت کو جواب دہ ہونا چاہیے اور آپ کی قانون سازی کی مطابق ا سٹیٹ بینک نہ تو ایوان کو جواب دہ ہو گا نہ ہی عدالت کو بلکہ ایوان سے بالاتر ہو گا۔ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کہ آپ پارلیمان کے ہاتھ باندھ دیں۔ ہم اس کو بھی عدالت میں چیلنج کریں گے‘۔
