اسلام آباد:سعودی عرب نے اس الزام کی تردید کر دی کہ اس نے پاکستان کو ملیشیا کے دارالخلافہ کولالمپور میں ہونے والے سربراہ اجلاس سے اپنا نام واپس لینے کے لیے اس کو دھمکی دی یا اس کو دباو¿ میں لیا۔
سعودی سفارت خانہ واقع پاکستان سے جاری بیان میں کہا گیا کہ سفارت خانہ نے اس اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے پاکستان کو قطعاً مجبور نہیں کیا۔ سفارت خانہ نے ایک اعلامیہ جاری کر کے کہا کہ مملکت سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان نہایت عمدہ تعلقات اور گہرے تعلقات ہیں اور کسی بھی معاملہ میں پاکستان کو دھمکی دینے یا کسی بات پر مجبور کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
دونوں ممالک کے درمیان مبنی بر اعتماد و افہام تفہیم اور احترام د یرینہ برادرانہ اور اسٹریٹجک تعلقات ہیں۔سعودی سفارت خانہ سے یہ بیان ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے اس بیان کے ایک روز بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کوالالمپور چوٹی اجلاس میں پاکستان نے اس لیے شرکت نہیں کی کیونکہ اسے سعودی عرب نے دھمکایاتھا۔
جمعہ کے روز اردوغان نے کہا تھاکہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کو ملیشیا چوٹی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ اس لیے کرنا پڑا کیونکہ سعودی عرب نے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان نے شرکت کی تو سعودی عرب اس کے خلاف اقتصادی پابندیاں لگا دے گا۔
ترکی کے اخبار صباح نے جمعہ کو اپنی رپورٹ میں کہا کہ اردوغان نے ترک ابلاغی ذرائع کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات نے کسی ملک کو دھمکایایا دباو¿ نہ ڈالا ہو کہ اسے کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے کیا نتائج بھگتنا ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ اردوغان کے حوالے سے اخبار مزید رقمطراز ہے کہ بدقسمتی سے اس بار سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکایا اور دباو¿ میں لیا۔
اب وہ سینٹرل بینک کے حوالے سے سعودی عرب پاکستان سے وعدے وعید کر رہا ہے۔مزید بر آں چالیس لاکھ سے زائد پاکستانی سعودی عرب میں بر سر روزگار ہیں۔ اور سعودی عرب نے پاکستان کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس نے ملیشیا سربراہ اجلاس میں حصہ لیا تو وہ اپنی سرزمین پر موجود تمام پاکستانیوں کو نکال کر ان کی جگہ بنگلہ دیشیوں کو نوکریوں پر رکھ لے گا۔
اردوغان کے مطابق اپنی بد حال معیشت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان نے اسی میں عافیت جانی کہ وہ سعودی عرب کی کے ذوق و شوق اور خواہشات کی تکمیل کرے۔اگرچہ پاکستان نے پہلے یہ اعلان کیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان ملیشیا نہیں جا سکیں گے اور اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کریں گے لیکن وزیر خارجہ نے بھی شرکت سے اظہار معذوری کر کے سعودی عرب کی خواہش پوری کر دی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس سربراہ اجلاس کی تجویز خود عمران خان نے سال رواں میں ستمبر میں ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران ملیشیائی وزیر اعظم ماٰثر محمد اور اردوغان سے ملاقات کے دوران پیش کی تھی۔لیکن سعودی عرب کو چونکہ خدشہ تھا کہ اس اجلاس کے روح رواں اور تین بڑے ایران، ترکی اور خود میزبان ملیشیا اسےعالم اسلام میں الگ تھلگ نہ کردیں چنانچہ اس نے پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا کو بھی دباو¿ میں لے لیا۔ اور انڈونیشیا خود پاکستان جیسے معاشی حالات سے دوچار ہے اس لیے مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق اسے بھی سعودی عرب کے آگے سر تسلیم خم ہے پر مجبور ہونا پڑا۔