EU submits 'final text' at Iran N-talksتصویر سوشل میڈیا

ویانا:(اے یو ایس ) ایران ویانا میں جاری مذاکرات میں یورپی یونین کی جانب سے پیش کردہ ایک ”حتمی متن“کا جائزہ لے رہا ہے۔اس کا مقصد تہران اورعالمی طاقتوں کے درمیان 2015 میں طے شدہ جوہری معاہدے کی بحالی ہے۔ایران کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایرنانے وزارت خارجہ کے ایک نامعلوم عہدہ دارکے حوالے سے بتایا کہ جیسے ہی ہمیں یہ خیالات موصول ہوئے، ہم نے دوسرے فریق کواپنے ابتدائی جواب اورغوروفکرسے آگاہ کردیا ہے لیکن فطری طورپران امور پر جامع نظرثانی کی ضرورت ہے اور ہم انھیں اپنے اضافی خیالات سے آگاہ کریں گے ۔قبل ازیں ایک یورپی عہدہ دار نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پرکہا کہ یورپی یونین نے معاہدے کی بحالی کے لیے حتمی مسودہ پیش کردیا ہے، مذاکرات ختم ہوچکے ہیں اوراس پر دوبارہ بات چیت نہیں کی جائے گی ۔

ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کی بحالی کے مقصد سے مذاکرات گذشتہ جمعرات کو ویانا میں دوبارہ شروع ہوئے تھے۔ایرانی ذرائع نے تجویز پیش کی ہے کہ جوہری توانائی کے عالمی ادارے(آئی اے ای) کی بین الاقوامی تحقیقات جوہری معاہدے کی بحالی کا ایک اہم نکتہ ہے۔لیکن یورپی عہدہ دار نے کہا:”اس کا جے سی پی او اے سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔واضح رہے کہ ایران سے جوہری معاہدہ مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ایران نے اتوار کے روز کہا تھاکہ آئی اے ای اے کو اس کےغیرعلانیہ مقامات پر جوہری مواد سے متعلق مسائل کومکمل طور پرحل کرنا چاہیے۔آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرزنے جون میں ایک قرارداد منظورکی تھی جس میں ایران سے متعلق کہاگیا تھا کہ وہ پہلے سے غیرعلانیہ تین مقامات پر افزودہ یورینیم کے نشانات کی دریافت کی مناسب وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے عہدہ دار نے پیرکے روز مزید کہا کہ گذشتہ چند دنوں کے مذاکرات کے دوران میں ہم نے اپنے مو¿قف سے دوسرے فریقوں کوآگاہ کیا ہے اور بعض معاملات میں نسبتاً پیش رفت ہوئی۔انھوں نے مزیدکہا کہ مذاکراتی ٹیم ایرانی قوم کے حقوق اورمفادات کے تحفظ کے ساتھ ساتھ فوائد کو یقینی بنانے اور دوسرے فریق کی ذمے داریوں کے پائیدارنفاذ کی ضمانت دینے اور امریکا کےغیرقانونی طرزعمل کی تکرار کو روکنے کی کوشش کرتی ہے“۔ایران سے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات مارچ سے تعطل کا شکار تھے۔امریکا اور ایران کے درمیان یہ بالواسطہ مذاکرات اپریل2021 میں شروع ہوئے تھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *