سہیل انجم
عام طور پر لوگ زندگی کی دعائیں مانگا کرتے ہیں۔ موت کی دعائیں نہیں مانگی جاتیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اگر کوئی شخص انتہائی تکلیف دہ مرض میں مبتلا ہے اور وہ مرض لاعلاج ہے تو بہت زیادہ عاجز آنے کے بعد وہ پکار اٹھے کہ اے اللہ تو مجھے موت دے دے۔ دوسروں کے لیے تو عام طور پر لوگ خیر کی ہی دعا مانگتے ہیں۔ اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی شفایابی کی دعا مانگی جاتی ہے اور اگر کوئی انتقال کر گیا ہے تو اس کی مغفرت کی یا اس کی آتما کی شانتی کی دعا مانگی جاتی ہے۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لوگ کسی کی موت کی دعا مانگیں اور کہیں کہ اس کو جلد از جلد دنیا سے ختم ہو جانا چاہیے یا اس روئے زمین کو اس کے وجود سے پاک ہو جانا چاہیے یا اسے تو فوراًپھانسی دے دینی چاہیے۔ ایک بار پھر ایسا موقع آیا ہے جب لوگ کسی کی موت کی دعا مانگ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اس کی زندگی کا خاتمہ جلد از جلد ہو جانا چاہیے۔ مزید برآں یہ کہ کسی ایک شخص کی زندگی کے خاتمے کی دعا نہیں مانگی جا رہی ہے بلکہ چار چار لوگوں کی موت مانگی جا رہی ہے۔
پورا ملک پکار رہا ہے کہ ان درندوں کو پھانسی دو، ان کے وجود سے ہندوستان کی سرزمین کو پاک کر دو۔ لیکن ہر شخص کی زندگی کی ساعتیں مقرر ہیں۔ کوئی چاہ کر بھی نہ تو اپنی زندگی کی ساعتیں قبل از وقت ختم کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری کی زندگی کی ساعتیں۔ قدرت نے جس کے نصیب میں جتنے دن لکھ دیے ہیں وہ پورے ہو کر رہیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ حیدرآباد کی ایک خاتون ڈاکٹر کی اجتماعی آبروریزی کرنے کے بعد اسے جلا کر مار دینے والے درندے اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن سات سال قبل دہلی کی ایک طالبہ کی اجتماعی عصمت دری کرنے اور انتہائی وحشیانہ طریقے سے اسے ہلاک کر دینے والے مجرم اب بھی زندہ ہیں۔ اور انھی مجرموں کے حق میں لوگ موت مانگ رہے ہیں، ان کے وجود سے ہندوستان کو پاک کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیکن ہندوستان قانون کی پابندی کرنے والا ملک ہے۔ قانون کی زبان میں کہا جاتا ہے کہ سو گناہ گار چھوٹ جائیں وہ ٹھیک ہے لیکن ایک بے گناہ کو سزا نہیں ہونی چاہیے۔ ہندوستان کا قانون ہر ملزم اور ہر مجرم کو آخری دم تک اپنے دفاع کا اختیار دیتا ہے۔ اگر کسی کو سزائے موت سنائی گئی ہے تو اس پر عمل آوری سے قبل اس کو پورا اختیار ہوتا ہے کہ وہ تمام قانونی مراحل طے کرے اور اپنے بچاو¿ کی کوشش کرے۔ لہٰذا نربھیا کے مجرموں کو بھی اپنے بچاو¿ کے سارے اختیارات دیے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ سے پھانسی پا جانے والے مجرم کو یہ قانونی حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ ریویو پٹیشن یعنی نظرثانی اپیل داخل کرے۔ اگر وہ بھی نامنظور ہو جائے تو اسے یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ صدر جمہوریہ سے رحم کی درخواست کرے۔ اگر صدر اسے معاف کر دیں تو اسے سزائے موت نہیں دی جاتی اور اگر اس کی سزا کم کر کے اسے عمر قید میں بدل دیں تو وہ عمر قید کی سزا بھگتے گا۔ لیکن جب تک صدر رحم کی درخواست نامنظور نہیں کر دیتے اس وقت تک اس کو پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ نربھیا کے مجرم اسی لیے ابھی تک اپنے حشر کو نہیں پہنچے ہیں کہ انھوں نے اپنے قانونی اختیارات کا مکمل استعمال ابھی نہیں کیا ہے۔ لیکن پورے ملک سے یہ مانگ پرزور انداز میں اٹھ رہی ہے کہ انھیں جلد از جلد پھانسی دی جائے۔ دہلی خواتین کمیشن کی چیئرپرسن سواتی مالی وال اسی مطالبے کے ساتھ راج گھاٹ پر کئی دنوں سے بھوک ہڑتال پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ لیکن جب تک تمام قانونی مراحل کی تکمیل نہیں ہو جاتی اس وقت تک انھیں پھانسی نہیں دی جا سکتی۔ نربھیا کے ساتھ وحشیانہ اور غیر انسانی حرکت 16 دسمبر 2012 کو ہوئی تھی۔ اسی لیے امید تھی کہ امسال 16 دسمبر تک مجرموں کو پھانسی ہو جائے گی۔ لیکن اس کا امکان بعید از قیاس لگ رہا ہے۔
بلا شبہ نربھیا واقعہ آزاد ہندوستان کا ایک انتہائی بھیانک واقعہ تھا۔ دہلی کی سڑکوں پر ایک چلتی بس میں ایک بیس سالہ طالبہ کی اس کے بوائے فرینڈ کے سامنے عزت لوٹی گئی تھی۔ مار پیٹ کی گئی تھی۔ لڑکی کی شرمگاہ میں لوہے کا راڈ گھسیڑ دیا گیا تھا۔ صرف اسی پر بس نہیں کیا گیا تھا بلکہ ان درندوں میں سے ایک نے لڑکی کی آنت باہر نکال دی تھی۔ بعد میں اس مجرم نے تہاڑ جیل میں خود کشی کر لی۔ اس وحشت و بربریت کے بعد اسے رات کی تاریکی میں سڑک پر پھینک دیا گیا تھا۔ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی چلی اور ہر عدالت نے انھیں موت کی سزا سنائی۔ اس وحشیانہ واقعہ کے خلاف پورے ملک میں جو زبردست ناراضگی پیدا ہوئی اور جیسا مظاہرہ ہوا ویسا بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ بلا شبہ خواتین کے خلاف جرائم کے ریکارڈ میں یہ واقعہ ایک ٹرننگ پوائنٹ یا ایک خطرناک موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد خواتین کے خلاف جرائم کے سلسلے میں موجود قوانین انتہائی سخت کیے گئے۔ تیز رفتار عدالتوں کا قیام عمل میں آیا اور دیگر اقدامات کیے گئے تاکہ خواتین اور بچیوں کے خلاف ہونے والے جرائم روکے جائیں۔ لیکن یہ جرائم اب بھی ہو رہے ہیں۔ حیدرآباد اور اناو¿ کے واقعات اس کی تازہ ترین مثالیں ہیں اور اس سے قبل کٹھوعہ کی ایک معصوم بچی کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا وہ تو بچیوں کے خلاف جرائم کے سلسلہ¿ واقعات کا بدترین واقعہ تھا۔ لیکن کیا کیا جائے کہ ایسے واقعات اب بھی ہو رہے ہیں۔ اگر چہ سماج کو بیدار کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آرہا ہے۔
اب حکومت اس بارے میں کافی سنجیدہ ہو گئی ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے ملک کے تمام وزرائے اعلیٰ اور تمام ہائی کورٹوں کے چیف جسٹسوں کو خط لکھا ہے کہ عصمت دری کے واقعات کی چھان بین دو ماہ کے اندر اور قانونی
کارروائی چھ ماہ کے اندر مکمل کر لی جائے تاکہ گناہ گاروں کو جلد از جلد کیفر کردار تک پہنچایا جا سکے۔ اب سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک یہ آواز بھی اٹھنے لگی ہے کہ ریپ کے ملزموں کو سزائے موت دی جائے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں۔ چند سالوں قبل تک لوگ اسلام کے نظام انصاف پر انگلی اٹھایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ موت کی سزا انتہائی بھیانک ہوتی ہے وہ نہیں ہونی چاہیے۔ ریپ کے مجرموں کو سنگسار کرنے کے خلاف بھی آوازیں اٹھ رہی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ یہ سزائیں بڑی وحشی ہیں۔ اسلام میں اگر کوئی شادی شدہ شخص زنا کا ارتکاب کرتا ہے خواہ وہ خاتون کی مرضی سے ہی کیوں نہ کر رہا ہو تو اسے سنگسار کرنے یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کر دینے کی سزا ہے۔ اور اگر کوئی غیر شادی شدہ شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اسے سو کوڑوں کی سزا دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سعودی عرب وغیرہ میں زنا یا زنا بالجبر کے واقعات بہت کم ہوتے ہیں۔ اسلام میں سزاو¿ں کو اسی لیے سخت رکھا گیا ہے تاکہ لوگ عبرت پکڑیں اور جرم کرنے سے قبل سو بار سوچیں۔ وہاں آج بھی موت کی سزا سرعام دی جاتی ہے۔ ہندوستان کی مانند نہیں کہ کسی کو پھانسی دینی ہے تو صبح کے دھندلکے میں جیل کے اندر کسی دوسرے کی موجودگی کے بغیر حاموشی سے پھانسی دے دی جائے۔ جب تک لوگ اس قسم کی سزاو¿ں پر عمل درآمد کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھیں گے اس وقت تک ان کے اندر ڈر اور خوف پیدا نہیں ہوگا۔ اسلام نے سخت سزائیں اسی لیے مقرر کی ہیں تاکہ لوگ ڈریں۔ آج پورا ہندوستان یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ ریپ کے مجرموں کو پھانسی دی جائے۔ اگر ایک بار ہندوستان میں پھانسی کی سزا سرعام شروع ہو جائے تو دیکھیے اس قسم کے بھیانک جرائم کیسے کم ہو جاتے ہیں۔ اگر سزا کے تعلق سے لوگوں میں ڈر نہیں ہوگا تو لوگ باز بھی نہیں آئیں گے۔ حکومت کا یہ قدم کہ چھ ماہ کے اندر قانونی کارروائی مکمل ہو جائے قابل قدر ہے۔ اس پر فوری طور پر عمل کیا جانا چاہیے۔
نربھیا کے مجرموں کو بھی جلد از جلد قانونی کارروائیوں سے گزار کر پھانسی پر لٹکانے کی ضرورت ہے۔ صرف پھانسی دینے ہی کی نہیں بلکہ اس کی تشہیر کی بھی ضرورت ہے تاکہ لوگ ایسے جرائم کرنے سے ڈریں۔ ابھی لوگوں میں کوئی خوف نہیں ہے۔ اب تو مجرمین ریپ کی متاثرین کو ایسی دھمکیاں بھی دینے لگے ہیں کہ اگر گواہی دینے گئیں تو اناو¿ جیسا حشر کیا جائے گا۔ اناو¿ میں ایک متاثرہ نے عدالتی کارروائی میں شرکت کرنی چاہی تھی تو اس کے مجرموں نے اسے تیل ڈال کر جلا دیا۔ بعد میں اس کی موت ہو گئی۔ ایسی دھمکیاں کیوں دی جا رہی ہیں اس لیے کہ لوگوں میں کوئی خوف نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مجرموں کو سزا بھی دی جائے اور ان کے اندر قانون کا اور سزاو¿ں کا خوف بھی پیدا کیا جائے۔ ہمیں امید ہے کہ نربھیا کے مجرموں کو سزا ملے گی تو جرائم پیشہ ذہنیت کے افراد میں کچھ خوف بھی پیدا ہوگا۔ اس لیے جتنی جلد انھیں پھانسی دی جائے معاشرے کے لیے اتنا ہی اچھا ہوگا۔
sanjumdelhi@gmail.com