کابل: گذشتہ روز یعنی جمعہ کو افغانستان کی آزادی کی 103ویں سالگرہ منائی گئی۔لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ آزادی کا جشن اس دھوم دھام سے نہیں منایا گیا جیسا کہ ماضی میں منایا جاتا رہا ہے۔اس کے مختلف اسباب بتائے جاتے ہیں۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ ایک صدی میں سیاسی استحکام نہیں آیا اور زیادہ تر حکومتیں جنگوں اور بغاوتوں سے وجود میں آئی ہیں۔ان کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کی حالیہ صورتحال طاقت کے زور پر قائم مطلق العنان حکومتوں کے باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 103 سال گزرنے کے بعد بھی افغانستان میں سیاسی استحکام نہیں آیا اور زیادہ تر حکومتیں جنگوں اور بغاوتوں کے ذریعے وجود میں آئیں۔
پچھلے 103 سالوں میں افغانستان مختلف اقسام کے طرز حکومت کے نظام دیکھ چکا ہے۔ جو بھی حکومت آئی اس نے سابقہ نظاموں کے تمام منصوبوں کو منسوخ کر کے تمام معاملات نئے سرے سے شروع کیے گئے۔ جس سے ملک ترقی کی راہ پر جا ہی نہیں سکا۔سیاسی امور کے ایک اور ماہر طارق فرہادی کاکہنا ہے کہ گزشتہ 103 سالوں میں اگرچہ ہم نے آزادی کا جشن منایا لیکن افغانستان کی تاریخ میں ایسے مواقع آئے جب افغان فیصلہ سازوں اور رہنماو¿ں کو مکمل آزادی حاصل نہیں تھی سیاسی امور کے ماہر جنت فہیم چکری نے کہا کہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں آئے رو ز تبدیلیاں واقع ہوتی رہی ہیں، اور ان تبدیلیوں نے زیادہ تر لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
شاہ امان اللہ خان نے، جو امیر حبیب اللہ خان کے تیسرے بیٹے تھے، 1919 میں انگریزوں کے ساتھ ایک مختصر جنگ کے بعد افغانستان کو برطانوی سامراج کے شکنجہ غلامی سے آزاد کرایا۔ یہ پہلے افغان حکمراں تھے جس نے خواتین کو آزادی دی اسکول جانے کی اجازت دی اور 1929میں بغاوت کے بعد برطانیہ کے زیر تسلط ہندوستان فرار ہونے سے قبل افغانستان کو جدیداور روشن خیال بنانے کی کوشش کی۔کابل کے ایک رہائشی جمشید بہزاد پور نے کہا کہ پچھلے سالوں میں، لوگ جوش و خروش کے ساتھ سڑکوں پر آتے تھے، اور یوم آزادی پر قومی پرچم چپے چپے پر لہرایا جاتا تھا، لیکن اس سال جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں، یہ جشن نہیں منایا گیا۔