Facebook controversy: BJP-Opposition match drawتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

اب یہ بات زیادہ اہم نہیں رہ گئی کہ یہ میڈیا کا دور ہے بلکہ یہ بات کہیں زیادہ اہم ہو گئی ہے کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ سوشل میڈیا میں فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور واٹس ایپ کو جو اہمیت حاصل ہے وہ نیوز چینلوں سے کہیں زیادہ ہے۔ اخبارات تو اب رفتہ رفتہ غیر اہم ہوتے جا رہے ہیں۔ نیوز چینلوں پر سے ناظرین کا اعتماد بہت حد تک اٹھ گیا ہے۔ نیوز چینلوں کے ناطرین دو خیموں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک خیمہ اکثریتی چینلوں کی رپورٹنگ سے خوش ہے تو دوسرا خیمہ ناخوش ہے۔ لہٰذا سوشل میڈیا دن بہ دن اہم ہوتا جا رہا ہے۔ شہر ہو یا دیہات ہر جگہ اس کی موجودگی ہے۔ خواندہ اور ناخواندہ سب اس کے گرویدہ ہیں۔ آج ہر شخص کی مٹھی میں پوری دنیا آگئی ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ اس پر خود اپنے خیالات ڈال سکتے ہیں اور اپنے نظریات دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ گویا ایک طرح سے ہر شخص صحافی ہو گیا ہے۔ سطور بالا میں جن سوشل میڈیا پلیٹ فارموں کے نام لیے گئے ہیں ان میں سب سے اہم فیس بک ہے اور دوسرے نمبر پر واٹس ایپ ہے۔ ٹویٹر اور انسٹا گرام پڑھے لکھے لوگوں کے پلیٹ فارم ہیں۔ جبکہ اول الذکر دونوں پلیٹ فارم کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں۔سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ سب سے پہلے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کیا تھا جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انھوں نے اسمبلی الیکشن میں اس کا بھرپور استعمال کیا تھا جس سے ان کو فائدہ پہنچا تھا۔ 2014 اور پھر 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں بھی انھوں نے اس کا استعمال کیا اور فائدہ اٹھایا۔ کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو بہت بعد میں اس کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔ بلکہ اس وقت بھی بی جے پی جس طرح سوشل میڈیا کا استعمال کرتی ہے اپوزیشن جماعتیں نہیں کر پاتیں۔ اسی لیے فیس بک کے تعلق سے ایک تنازع پیدا ہو گیا ہے۔ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا الزام ہے کہ فیس بک بی جے پی کی طرفداری کرتا ہے۔ بلکہ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے تو دو قدم آگے بڑھ کر یہاں تک کہہ دیا کہ ہندوستان میں بی جے پی فیس بک کو کنٹرول کرتی ہے۔

یہ تنازع ایک امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد پیدا ہوا۔ رپورٹ میں مثال دیتے ہوئے الزام عاید کیا گیا کہ فیس بک انڈیا بی جے پی رہنماؤں کی حمایت کرتا ہے اور ان کے نفرت انگیز بیانات اور تقریروں کو اپنے پلیٹ فارم سے نہیں ہٹاتا۔ اس نے تلنگانہ کے واحد بی جے پی ایم ایل اے ٹی راجہ سنگھ کی مثال پیش کی اور کہا کہ ان کے مبینہ نفرت انگیز بیانات کو فیس بک سے نہیں ہٹایا گیا۔ اس سلسلے میں کانگریس نے فیس بک کو دو خطوط لکھے اور دونوں میں فیس بک کی جانب سے بی جے پی کی حمایت کا الزام لگایا گیا۔ امریکی اخبار کی رپورٹ میں فیس بک انڈیا کی ایک اہم پالیسی عہدے دار انکھی سنگھ کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ فیس بک نے اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ اس کی پالیسی سب کے لیے مساوی ہے۔ اس کی پالیسی میں نفرت و تشدد کو ہوا دینے کی قطعی گنجائش نہیں ہے اور ایسے مواد کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس پالیسی کا اطلاق سب پر ہوتا ہے اور کسی کے سیاسی روابط یا پوزیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔بہر حال جب یہ تنازع پیدا ہوا تو انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلق پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے اس سلسلے میں میٹنگ کرنے اور اس میں فیس بک انڈیا کے ذمے داروں کو طلب کرنے کا اعلان کیا۔ چونکہ اس کمیٹی کے چیئرمین کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور ہیں اس لیے بی جے پی کے بعض رہنماو¿ں نے ا س کی مخالفت کی اور انھیں چیئرمین شپ سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن دو ستمبر کو اس کی میٹنگ ہو گئی۔ اس کمیٹی میں کل تیس ممبران ہیں۔ لیکن نصف سے کچھ زائد ہی میٹنگ میں پہنچے۔ البتہ بی جے پی کے گیارہ ممبران پہنچ گئے۔ اپوزیشن بالخصوص کانگریس نے یہ پلاننگ کی تھی کہ وہ امریکی اخبار کی رپورٹ کی بنیاد پر فیس بک اور بی جے پی دونوں کا کام تمام کر دے گی۔ لیکن ہو گیا الٹا۔ ایک تو اپوزیشن کے زیادہ ممبر آئے نہیں اور دوسرے یہ کہ ان کے پاس زیادہ کچھ کہنے کو تھا نہیں۔ دوسری طرف بی جے پی کے گیارہ ممبران پہنچ گئے اور جو پہنچے انھوں نے پوری تیاری کر رکھی تھی۔ اپوزیشن یہ سوچے بیٹھا تھا کہ فیس بک اور بی جے پی میں قریبی اور دوستانہ رشتوں کو اجاگر کرکے دونوں کو کنارے لگا دے گا لیکن بی جے پی ممبران نے بڑی حد تک یہ ثابت کر دیا کہ فیس بک انڈیا کے ذمے داروں کے کانگریس اور بائیں بازو سے تعلقات ہیں۔ اپوزیشن ممبران کے ہر الزام کے جواب میں بی جے پی ممبران نے جوابی اور بھرپور الزام لگایا۔ انھوں نے تقریباً یہ ثابت کر دیا کہ فیس بک اور کانگریس میں رشتے ہیں اور بی جے پی کے بجائے وہ اپوزیشن کی حمایت کرتا ہے۔

مثال کے طور پر بی جے پی کے ایم پی نشی کانت دوبے نے فیس بک انڈیا کے چیف اجیت موہن سے پوچھا کہ
کیا وہ یو پی اے حکومت میں پلاننگ کمیشن میں کام نہیں کر رہے تھے اور کر رہے تھے تو کس پوزیشن میں کر رہے تھے۔ اجیت موہن نے اعتراف کیا کہ وہ 2014 سے قبل پلاننگ کمیشن میں ایک پرائیویٹ کنسلٹینسی فرم کے نمائندے کی حیثیت سے کام کر رہے تھے جس کا کام شہری ترقیات کے سلسلے میں مشورہ دینا تھا۔ لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کا کانگریس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بی جے پی ممبران نے انکھی داس کے بارے میں سوال کیا کہ کیا وہ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس کی ایم ایل اے نہیں تھیں۔ بی جے پی ممبران نے اپوزیشن ممبران کی پلاننگ کو پنکچر کر دیا۔ دراصل بی جے پی نے دفاعی کے بجائے جارحانہ موقف اختیار کیا اور ا س کا آغاز ایک روز قبل ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر روی شنکر پرساد نے فیس بک کو ایک خط لکھ کر کر دیا تھا جس میں انھوں نے الزام لگایا تھا کہ فیس بک انڈیا کے بعض عہدے دار آن ریکارڈ وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر مرکزی وزرا کو گالیاں دیتے اور ان کی شان میں بد کلامی کرتے ہیں۔ اسی سے اندازہ ہو گیا تھا کہ میٹنگ میں بی جے پی دھواں دھار پرفارمنس دکھائے گی اور ہوا بھی وہی۔ ایک طرح سے بی جے پی اور اپوزیشن کے سوالوں کی گولہ باری میں فیس بک کے ذمہ داران پھنس گئے تھے۔

دو گھنٹے تک چلی میٹنگ میں اجیت موہن سے تقریباً ڈیڑھ سو سوالات کیے گئے۔ انھوں نے کچھ جوابات دیے اور باقی کے بارے میں کہا کہ وہ تحریری جواب دیں گے۔ اس طرح مذکورہ میٹنگ حملے او رجوابی حملے میں ختم ہو گئی اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اگلے مہینے اس کمیٹی کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ جب دوسری کمیٹی تشکیل پائے گی تب کہیں اس کی دوسری میٹنگ ہوگی اور اس میں فیس بک معاملے پر غور کیا جائے گا۔ گویا بی جے پی جو چاہتی تھی وہ ہو گیا۔ اسی درمیان فیس بک نے ایک بار پھر وضاحت کی ہے کہ اس کی پالیسی نفرت اور تشدد کو بڑھاوا دینے والی نہیں ہے اور اس قسم کا مواد پلیٹ فارم سے ہٹا لیا جاتا ہے۔ البتہ اس میٹنگ کے اگلے روز فیس بک نے تلنگانہ سے بی جے پی رکن اسمبلی ٹی راجہ سنگھ پر پابندی لگا دی ہے۔ حالانکہ گزشتہ مہینے راجہ سنگھ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا کوئی فیس بک اکاونٹ نہیں ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کے نام سے کئی فیس بک اکاونٹ چل رہے ہیں۔ لہٰذا ان پر جو کچھ پوسٹ کیا جاتا ہے اس سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ خیال رہے کہ ٹی راجہ سنگھ ایک متنازعہ شخصیت کے مالک ہیں اور تلنگانہ میں ان کے خلاف متعدد کیس چل رہے ہیں۔ اس طرح اگر دیکھیں تو ٹی راجہ سنگھ کے معاملے میں اپوزیشن کی جیت ہوئی ہے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمیٹی کی میٹنگ میں بی جے پی حاوی رہی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اب یہ معاملہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ گویا نہ کسی کی فتح ہوئی نہ کسی کی شکست۔ بلکہ دونوں کی ہی جیت ہوئی ہے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *