برلن:(اے یوایس)ارمگارڈ فرکنر نے عدالتی کارروائی کے دوران اپنے چہرے کو چھپائے رکھا۔97 سالہ جرمن خاتون ملزمہ کو ہولوکاسٹ کے دوران 10 ہزار 505 افراد کے قتل میں اعانت کرنے پر سزا سنا دی گئی۔رپورٹ کے مطابق 1943 سے 1945 کے درمیان ارمگارڈ فرکنر کی عمر 18 برس تھی، وہ اسٹٹہوف کیمپ میں ٹائپسٹ کے طور پر کام کر رہی تھی جہاں 1939 سے 1945 کے عرصے میں 65 ہزار افراد کو قتل کیا گیا۔
عدالت نے ارمگارڈ کو آج دو سال قید کی سزا سنائی ہے، اس کا ٹرائل پچھلے برس اکتوبر میں شروع ہوا تھا۔کئی دہائیوں بعد یہ پہلی خاتون ملزمہ ہے جسے نازی دور میں ہونے والے جرائم پر سزا دی گئی ہے۔ستمبر 2021 میں ٹرائل سے بچنے کیلئے ارمگارڈ فرار ہوگئی تھی لیکن اسے چند ہی گھنٹوں بعد گرفتار کرلیا گیا تھا۔ٹرائل کے دوران عدالت نے اسٹٹہوف کیمپ میں زندہ بچ جانے والے افراد کی گواہیاں قلمبند کیں، اسٹٹہوف پولینڈ کے شہر ڈانسک میں واقع ہے۔
عدالتی کارروائی کے دوران زیادہ وقت خاموش رہنے کے بعد ارمگارڈ نے رواں مہینے کے پہلے ہفتے بیان دیا اور کہا کہ ’مجھے افسوس ہے کہ میں اُس وقت (ہولوکاسٹ) کے دوران اسٹٹہوف میں تھی، میں بس یہی کہہ سکتی ہوں‘۔رپورٹ کے مطابق مورخ اسٹیفن ہورڈلر نے ججز کو اسٹٹہوف کیمپ کا دورہ کروایا۔انہوں نے ثابت کیا کہ ارمگارڈ نازی فوج کے کمانڈنٹ کے دفتر میں ایسی جگہ بیٹھتی تھیں جہاں سے وہ قیدیوں پر ظلم ہوتے ہوئے دیکھ سکتی تھیں۔یاد رہے کہ ہولوکاسٹ کے دوران اسٹٹہوف کے کمانڈنٹ رہنے والے پال ورنر ہوپ کو 1955 میں 9 برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
