Former Defense Secretary Esper sues the Pentagon over book redactionsعلامتی تصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن:(اے یو ایس ) امریکہ کے سابق وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ انہوں نے امریکی محکمہ دفاع کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے کہ انہیں اس مواد کے استعمال سے غلط طور پر روکا جا رہا ہے، جس کی انہیں اپنی ایک کتاب میں اشاعت کے لیے ضرورت ہے، جس کا تعلق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کابینہ میں اس وقت کی غیرمتعصب اور واضح یاداشت سے تعلق ہے، جب وہ وزیر دفاع تھے۔اتوار کے روز واشنگٹن کے ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیے جانے والے اس مقدمے میں کہا گیا ہے کہ اے سیکرڈ اوتھ ایسپر کی اس دور کی یاداشتوں پر مبنی کتاب ہے جب وہ 2017 سے 2019 کے دوران وزیر دفاع رہے تھے۔

انتخابات میں شکست کھانے کے بعد صدر ٹرمپ نے انہیں اپنی ایک ٹوئٹ کے ذریعے برطرف کر د یا تھا۔مقدمے میں کہا گیا ہے کہ جس دور میں ایسپر پنٹاگان کے سربراہ تھے، وہ عوامی بے چینی، عوامی صحت کے بحرانوں، بڑھتے ہوئے بیرونی خطرات، پنٹاگان میں ہونے والی تبدیلیوں، اور وائٹ ہاو¿س کی جانب سے بظاہر آئین کی پامالی کی کوششوں کے لحاظ سے ایک ایسا دور تھا جس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔پینٹاگان کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ محکمہ ایسپر کے خدشات سے آگاہ ہے۔انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس طرح کے تمام جائزوں کی طرح، محکمہ قومی سلامتی اور مصنف کے بیانیے میں توازن قائم رکھنے سے متعلق اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے ادا کرتا ہے”۔پینٹاگان کے ترجمان جان کربی۔ایسپر اور ٹرمپ کی سوچ اور نقطہ نظر، جون 2020 میں ایک سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد پھیلنے والی شہری بدامنی کے دوران فوج کے استعمال پر تیزی سے تقسیم ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ کئی اور ایسے معاملات بھی تھے جس سے صدر ٹرمپ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ ایسپر ان کے اتنے وفادار نہیں رہے جتنا کہ ان کے خیال میں انہیں ہونا چاہیے تھا، جب کہ ایسپر کا خیال تھا کہ وہ اپنے محکمے کو غیر سیاسی رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔انتخابات میں شکست کھانے کے بعد اپنے وزیر دفاع کو برطرف کرنا ایک ایسا واقعہ تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ لیکن اس صورت حال نے ٹرمپ کو پینٹاگان کے اعلیٰ عہدوں پر اپنے وفاداروں کو تعینات کرنے کا موقع فراہم کیا، کیونکہ وہ انتخابات میں اپنی شکست تسلیم کرنے کے خلاف لڑ رہے تھے۔

مقدمے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ولیم مور کی یاداشتوں کے اہم متن کو، جسے مئی میں شائع ہونا تھا، درجہ بندی کی آڑ میں غلط طریقے سے روکا جا رہا ہے۔ ایسپر کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی خفیہ معلومات نہیں ہیں۔مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ایسپر کو اس کے رازداری کے معاہدوں کے ذریعے پینٹاگان کی منظوری کے بغیر اشاعت کی اجازت دینے سے روک دیا گیا ہے، بصورت دیگر انہیں ممکنہ سول اور مجرمانہ ذمہ داری کا سامنا کرنا پڑے گا۔دائر کیے جانے والے مقدمے میں ایسپر کی جانب سے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کو بھیجے گئے خط کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں نظرثانی کے عمل پر تنقید کی گئی ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ملاقاتوں میں ٹرمپ اور دوسروں کا حوالہ نہ دیں، ٹرمپ کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو بیان نہ کریں، اور تاریخی واقعات کو بیان کرتے وقت کچھ مخصوص فعل یا اسم بھی استعمال نہ کریں۔

اس خط میں دیگر مسائل والے مضامین کی وضاحت کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مسودے کے تقریباً 60 صفحات میں ایک موقع پر ترمیمات شامل ہیں۔ ایسپر نے لکھا کہ ان تمام ترامیم سے اتفاق کرنے کے نتیجے میں “تاریخ کے ان اہم لمحات کے ساتھ ایک سنگین ناانصافی ہوگی جسے امریکی عوام کو جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔”مقدمے میں مزید کہا گیا ہےکہ ایسپر کے زیرغور مسودے میں شامل کچھ واقعات کو ممکنہ طور پر ان کا اثر گھٹانے کے لیے مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ کو لیک کیا گیا تھا۔57 سالہ ایسپر نے،جو ویسٹ پوائنٹ سے فارغ التحصیل اور خلیجی جنگ میں حصہ لے چکے ہیں، ایک بیان میں کہا ہے کہ انہوں نے نظرثانی کا عمل مکمل ہونے کا چھ ماہ تک انتظار کیا لیکن “میرے مسودے میں، جو کلاسیفائیڈ کے دائرے میں نہیں آتا، مجھے واضح طور پر کچھ بتائے بغیر اس میں من مانی طور پر ترمیم کیوں کی گئی ہے”۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے اس بات پر بہت مایوسی ہوئی ہے کہ موجودہ انتظامیہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے تحت مجھے حاصل حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے۔ اور مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ اب میرے پاس امریکی عوام کو اپنی پوری کہانی سنانے کے لیے قانونی راستہ ہی بچا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *