واشنگٹن: (اے یو ایس) امریکہ کے سابق صدور نے کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے امریکی روایات کے منافی قرار دیا ہے۔ری پبلکن جماعت سے وابستہ سابق صدر جارج ڈبلیو بش نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ صدارتی انتخابات کے بعد سے ا±نہیں بعض سیاسی رہنماؤں کے رویے پر حیرت ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج ہمارے اداروں، روایات اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تضحیک ہوئی ہے اور اس کا دنیا بھر میں مذاق اڑایا جا رہا ہے۔
جارج ڈبلیو بش کا مزید کہنا تھا کہ کیپٹل ہل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور کانگریس کے اجلاس میں رکاوٹ ان لوگوں نے ڈالی جن کی امیدیں اور جذبات غلط ہاتھوں میں ہیں۔یاد رہے کہ جارج بش ان نمایاں ری پبلکن رہنماؤں میں شامل ہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کے حامیوں کی جانب سے کی گئی ہنگامہ آرائی کی مذمت کی ہے ۔
ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق صدر براک اوباما نے بھی کیپٹل ہل پر چڑھائی کی مذمت کرتے ہوئے موجودہ صورتِ حال کو ملک کے لیے شرمناک قرار دیا ہے۔
اوباما نے جمعرات کو ٹوئٹر پر جاری ایک تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ کیپٹل ہل میں ہونے والی ہنگامہ آرائی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی اور یہ بھی کہا جائے گا کہ موجودہ صدر قانونی الیکشن پر بلاجواز اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ دو ماہ سے ایک سیاسی جماعت اور ان کا حامی میڈیا اپنے حامیوں کو سچ نہیں بتا رہا اور اب ہم اس کے نتائج بھگت رہے ہیں۔
براک اوباما کا کہنا تھا کہ نو منتخب صدر جو بائیڈن نے واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے اور وہ 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
امریکہ کی قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ اوبرائن نے کہا ہے کہ امریکی جمہوریت میں تشدد کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج ہم نے جو کچھ دیکھا اس کا ہمارا ملک متقاضی نہیں ہے۔
امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے بھی کہا ہے کہ آج ہماری جمہوریت پر شرمناک حملہ ہوا ہے۔یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے بدھ کو امریکی دارالحکومت واشںگٹن ڈی سی میں کی سڑکوں پر گشت کیا اور وہ وائٹ ہاﺅس کے باہر جمع ہوئے۔
اس موقع پر صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب کے دوران انہیں کیپٹل ہل کی جانب مارچ کرنے کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ انہیں عہدے پر برقرار رکھنے کے لیے حامیوں کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔
بعدازاں مظاہرین کیپٹل ہل میں گھس گئے اور توڑ پھوڑ کرتے ہوئے کانگریس کی کارروائی کو روک دیا۔کانگریس ارکان صدارتی انتخابات کے دوران بعض ریاستوں میں اٹھنے والے اعتراضات پر بحث و مباحثہ کر رہے تھے اور اس اجلاس میں نو منتخب صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملا ہیرس کی کامیابی کی توثیق کی جانی تھی۔
