کوئٹہ،:( اے یوایس) صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادار کی تحصیل اورماڑہ میں تیل و قدرتی گیس ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ(او جی ڈی سی ایل )کے قافلے کی حفاظت پر مامور پاکستانی نیم فوجی دستوں کے اہلاکروں کو نشانہ بنا کر کیے گئے بندوقوں اور راکٹوں سے کیے گئے حملے میں 14افراد ہلاک ہو گئے ۔
ہلاک شدگان میں سات سیکورٹی اہلکار اور سات ہی نجی سیکورٹی گارڈز شامل ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ نے اس حملے میں سات سیکورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’دہشت گردی کا یہ واقعہ دشمن عناصر کی بزدلانہ کارروائی ہے۔ شرپسند عناصر کو ان کے عزائم میں ہرگز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘وزیر اعظم عمران خان کے آفس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں سیکورٹی اہلکاروں کے خاندانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس واقعے کی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق یہ حملہ اورماڑہ کے علاقے سرپٹ میں ہوا جس کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔گوادر انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ اس حملے میں قافلے کی حفاظت پر مامور فرنٹیئر کور کی دو گاڑیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
ان کے مطابق نامعلوم مسلح افراد نے ان گاڑیوں پر بڑے اور چھوٹے ہتھیاروں سے حملہ کیا۔فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے فی الحال اس حملے کی تفصیلات اور اس میں ہونے والے جانی نقصان کی تفصیلات جاری نہیں کی گئی ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا اپنے پیغام میں مزید کہنا ہے کہ حملے میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی اور انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔
انھوں نے ہلاک ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر جاری کردہ اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ کوسٹل ہائی وے پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی جانوں کا ضیاع ’اس بات کی علامت ہے کہ دشمن بلوچستان اور اس کے عوام کو ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتا‘۔اورماڑہ بلوچستان کے ضلع گوادر کی کراچی کے قریب واقع ایک تحصیل ہے۔ اورماڑہ میں اپریل 2019 میں بھی سکیورٹی فورسز پر حملے میں 14 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اپریل 2019 میں ہلاک ہونے والے اہلکاروں کا تعلق کوسٹ گارڈ اور نیوی سے تھا۔ جبکہ مئی 2019 میں گوادر میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل پر بھی مسلح افراد نے حملہ کیا تھا جس میں پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے۔گوادر انتظامی طور پر مکران ڈویڑن کا حصہ ہے۔گوادر کی طرح مکران ڈویڑن کے دو دیگر اضلاع کیچ اور پنجگور بھی شورش سے متاثر ہیں۔اگرچہ مکران ڈویڑن میں حملے ہوتے رہتے ہیں تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ پہلے کے مقابلے میں ان علاقوں میں امن وامان کی صورتحال میں بہت زیادہ بہتری آئی ہے۔
اس سے قبل آٹھ مئی کو صوبہ بلوچستان میں ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک بڑے حملے میں پاکستانی فوج کے ایک میجر سمیت چھ اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔اس حملے کے بعد پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ پاکستان ایران سرحدی علاقے کے قریب بلوچستان کے ضلع کیچ میں شدت پسندوں کی ممکنہ نقل و حمل کی نگرانی کے لیے معمول کے گشت سے واپسی پر سکیورٹی فورسز کی گاڑی پر ریموٹ کنٹرول دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) سے حملہ کیا گیا۔کالعدم بلوچ عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔جبکہ اس کے چند روز بعد 19 مئی کو صوبے کے دو مختلف علاقوں، کچھی اور کیچ، میں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں کم از کم سات فوجی اہلکار ہلاک جبکہ چار زخمی ہوئے تھے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق کچھی میں مچھ کے علاقے پیرغیب میں فرنٹیئر کور کی ایک گاڑی کو معمول کی گشت کے بعد کیمپ واپس جاتے ہوئے بم حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا جس میں چھ اہلکار ہلاک اور چار زخمی ہوئے تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک نائب صوبیدار بھی شامل تھا۔اس حملے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچستان لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی۔14 جولائی کو بلوچستان کے ضلع پنجگور میں نامعلوم مسلح افراد کی جانب سے ایک اور حملہ کیا گیا جس میں سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار ہلاک جبکہ ایک افسر سمیت آٹھ اہلکار زخمی ہوئے تھے۔پاکستان فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کے مطابق یہ حملہ ضلع پنجگور کے علاقے گیچک میں اس وقت کیا گیا تھا جب اہلکار اس علاقے میں معمول کی گشت پر تھے۔