From Borders to Banks: The Infinite Spectrum of Pakistan Military’s Profiteering Enterpriseعلامتی تصویر سوشل میڈیا

جب 12جولائی2019کو بین الاقوامی مرکز برائے تصفیہ تنازعات سرمایہ کاری نے پاکستان کے خلاف 5.976بلین ڈالر کا جرمانہ ،جو تاریخ کا سب سے بڑا جرمانہ ہے، عائد کر کے اسے ایک کثیر اقوامی کان کن کمپنی ٹیتھن کوپر کمپنی (ٹی سی سی) کو ادا کرنے کا حکم دیا تو پورے پاکستان میں صدمہ کی لہر دوڑ گئی۔کم وبیش سبھی اس فکر میں غلطاں ہو گئے تھے کہ پاکستان اس خوفناک صورت حال کا کیسے سامنا کرسکے گا۔ کیونکہ جرمانہ کی رقم پاکستان کی سالانہ شرح نمو کا تقریباً2فیصد اور غیر ملکی زرمبادلہ کی کل پونجی کا 40فیصد تھا۔ ٹی سی سی نے، جس نے 2006میں بلوچستان کے ریکو دق میں کانوں کا ٹھیکہ حاصل کرنے سونا اور تانبہ دریافت کیا تھا،2011میں بلوچستان کی مائننگ اتھارٹی کے ذریعہ اس کی کانیں لیز پر لینے کی درخواست خارج کردینے پر 8.5بلین ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کیا تھا ۔آئی سی ایس آئی ڈی جرمانے کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ایک کمیشن کو ہدایت کی کہ وہ اس امر کی تحقیقات کرے کہ آخروہ کای عوامل و عواقب تھے جن کے باعث پاکستان اس بری حالت کو پہنچا۔ اور یہ کہ ملک کو اس قدر زبردست خسارے سے دوچار کرنے کا کون ذمہ دار ہے۔

وزیر اعظم خان نے کسی کو ذمہ دار ٹہرانے کے لیے کوئی جدو جہد یا کوشش نہیں کی ۔بس انہوں نے ان لوگوں سے ،جس نے انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچایا تھا،پاکستان کی فوج کے افسران بالا سے ہی رجوع کرنا پڑا۔ تاہم ستم ظریفی یہ رہی کہ اس سے انہیں کوئی سیدھا جواب نہیں مل سکا۔

پاکستانی اسکالر اور سابق سفیر متعین امریکہ حسین حقانی کا ، جو فی الحال واشنگٹن ڈی سی کے ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں جنوب و وسطی ایشیاامور کے ڈائریکٹر ہیں ، کہنا ہے کہ 2011میں فوج کی حمایت سے پاکستانی جوہری سائنسداں ثمر مبارک مند نے ریکو دق سے غیر ملکی کمپنیوں کو نکال باہر کرنے کا مطالبہ کیا ۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ، جس کے اس وقت سماجی کارکن چیف جسٹس افتخار چودھری تھے، 2013میں ٹیتھن کوپر کمپنی کا ٹھیکہ منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ نتیجہ میں مبارک مند کی کمپنی نے کان کنی اور دھات کو پگھلا کر صاف کرنا شروع کر دیا۔پس پردہ کام کرتے ہوئے فوج نے ایک بار پھر اس میں دخل اندازی کی اور ریکو دق کی کچھ کانوں کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی میٹا لرجیکل کارپوریشن آف چائنا(ایم سی سی) کو دے دیا۔لیکن مختلف وجوہ کی بنا پر دونوں پراجکٹوں کو کوئی تجارتی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔

زبردست جرمانے کے باوجود جس میں کہ پاکستان جکڑا ہوا ہے ،ریکو دق جیسی ذلت آمیز ناکامی یا اچانک حادثہ سے اس زبردست تجارتی سلطنت پر جو کہ پاکستانی فوج نے گذشتہ سات عشروں کے دوران قائم کی ہے کوئی زک نہیں پہنچی۔پاکستانی مل بس نام سے معروف فوج کے پانچ ادارے یعنی فوجی فا ونڈیشن (وزارت دفاع کے زیر اہتمام)، آرمی ویلفئیر ٹرسٹ (پاکستانی فوج کے زیر نگرانی)، شاہین فاؤنڈیشن (پاکستان فضائیہ کے زیر سرپرستی)، بحریہ فاؤنڈیشن پاکستان بحریہ کے زیر انتظام) اور پاکستان آرڈی ننس فیکٹری بورڈ (وزار ت دفاع کے زیر اہتمام) کے ذیلی100آزاد تجارتی ادارے ہیں۔

:ایک وسیع و عریض سلطنت

مسلسل ترقی کرنے والی تجارتی سلطنت کی حدود ناقابل تصور اور حیرت انگیز ہے۔سمنٹ سے اناج تک، انشورنس سے گیس تک، کھاد سے مچھلی پالن تک، بیج سے پکی فصل تک، ملبوسات سے ہوا بازی تک، گوشت سے طبی آلات تک یعنی آپ جس کا بھی نام لیں پاکستان میں ملی بس ہر قسم کی مصنوعات کا کاروبار کرتی ہے اور سرحد کے تفظ کی اصل ذمہ داریوں سے نہ اس کا کوئی تعلق ہے اور اگر ہے بھی تو برائے نام ہے۔

یہ تجارتی ادارے چلانے والی فاؤنڈیشنیں پاکستان کے قانون کے تحت کمپنیوں کے نام سے نہیں بلکہ خیراتی یا سوسائٹیوں کے نام سے درج ہیں۔فوجی فاؤنڈیشن ، شاہین فاؤنڈیشن اور بحریہ فاؤنڈیشن 1890کے خیراتی وقف قانون کے تحت درج ہے، آرمی ویلفئیر ٹرسٹ سوسائٹی اندراج قانون مجریہ1860کے تحت درج ہے۔ ہر فاؤنڈیشن کا انتظام تین دفاعی افواج کے تین میں سے ایک سربراہ کی زیر صدارت انتظامیہ کمیٹی دیکھ رہی ہے۔ یہ فاؤنڈیشنیں پاکستان کی سب سے بڑی صنعتوں اور تجارتی اداروں پر مشتمل ہیں تاہم ان میں سے ایک بھی کمپنی قانون مجریہ2017کے تحت نہیں آتی ہیں جبکہ منفعت بخش اداروں پر اس قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔

پاکستانی فوج سوشل کمیونکیشن آرگنائزیشن (ایس سی او)، نیشنل لاجسٹک سیل(این ایل سی) اور فرنٹئیرر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) بھی چلاتی ہے۔ان تینوں کمپنیوں کی کمان پاکستان واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کی طرح پاکستانی فوج کے بر سر خدمت سینیئر افسران سنبھالے ہوئے ہیں۔قبل ازیں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی بی نگرانی و انتظام فوج کے سینیئر افسران کر رہے تھے لیکن حالیہ برسوں میں سینیئر فوی افسران کی سنگین بدعنوانی کے باعث اسے غیر فوجی انتظامیہ کو سونپنا پڑا۔ ایس سی او 1976میں شمالی علاقوں اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں تجارتی نیٹ ورک کھولنے کے لیے تشکیل کی گئی تھی۔

این ایل سی 1978میں ایک کارگو کمپنی کے طور پر شروع کی گئی تھی اور اس کے زیر ملکیت ٹرکوں اور سمندری جہازوں کا ایک بڑا بیڑہ ہے۔ایف ڈبلیو او چین کو پاکستان سے مربوط کرنے والی قراقرم شاہراہ کی تعمیر کے لیے 1966میں تشکیل دی گئی تھی۔ایس سی او، این ایل سی اور ایف ڈبلیو او میں کئی بر سر خدمت فوجی افسران ہیں جو اٹیچمنٹ یا ڈیپوٹیشن پر بھیج کر کلیدی عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ یہ بڑے منافع بخش تقررات ہیں جہاں کمائی اور تجارتی سیکٹر سے تعلقات بڑھانے کے زبردست مواقع ہیں ۔

اصل میں جنگی نوعیت سے ڈیمی ملٹری آرگنائزیشن سمجھی جانے والی ایس سی او، این ایل سی اور ایف ڈبلیو او منافع کمانے کی نیت سے تیزی کے ساتھ غیر فوجی حلقوں میں ڈالی جارہی ہیں۔وہ سرکاری ٹھیکوں کے لیے بولی لگاتی ہیں اور اکثر انتخابی عمل میں ان سے ترجیحی سلوک کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر گوردوارہ دربار صاحب کرت پور کو ہندوستانی سرحد سے ملانے کے لیے پاکستان کے تجویز کردہ کرت پور راہداری پراجکٹ کے غیر فوجی کاموں کے لیے ایف ڈبلیو او فوج کی فطری پسند تھی۔ 2019میں ایف ڈبلیو او کے ذریعہ کیے گئے تعمیراتی کام کے گھٹیا معیار کا بھانڈا اس وقت پھوٹ گیا جب اپریل2020میں ایک طوفان میں تزئین کاری شدہ گوردوارے کے 8گنبد ٹوٹ کر گر گئے۔

اور زیادہ دور کیوں جایا جائے گلگت بلتستان میں دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے پاور چائنا اور فرنٹئیر ورکس آرگنائزیشن کے درمیان ایک مشترکہ پراجکٹ دیا گیا۔یہ ڈیم ہند پاکستان کے درمیان سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہے تاہم تجارتی ذہنیت کی مالک پاکستانی فوج کو اس کی کوئی پروا نہیں ہے۔

این ایل سی کے ٹرکوں کا زبردست بیڑہ جو در اصل 1970میں افغانستان میں سوویت فوج سے بر سر پیکار مجاہدین کے لیے کراچی بندرگاہ پر پہنچنے والے امریکی سازو سامان کو خفیہ طریقہ سے منتقل کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا،1996میںانٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) ڈائریکٹوریٹ نے افغان طالبان کو اسلحہ، ایندھن اورخوراک بہم پہنچانے کے لیے بڑے موثر طریقہ سے استعمال کیا تھا۔حالیہ عشروں میں این ایل سی کے ٹرکوںکا بیڑہ پاکستان سے افغانستان ساز سامان بشمول ناٹو /آئی ایس اے ایف فوجی کارروائی سے متعلق رسد کی نقل و حمل کے لیے سرکاری ٹھیکوں پر دے دیا گیا تھا۔یہ ایک کھلا راز ہے کہ افغانستان سے پاکستان منشیات کی اسمگلنگ کے لیے اس قسم کے ٹرکوں کا کثر سے استعمال کیا جاتا ہے۔ منشیات اور رسد کے درمیان ناپاک ملی بھگت کی سہولت بہم پہنچانے میں آئی ایس آئی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

فوجی فاؤنڈیشن اس پر اصرار کرتی ہیں کہ ان کی بنیادی توجہ یتیموں ، جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی بیواؤں ، معذور فوجیوں اور سابق فوجیوںکی باز آباد کاری و فلاح و بہبود پر رہتی ہے۔تاہم در حقیقت فاؤنڈیشنز انسان دوستی یا ہمدردی سے کوسوں دور ہیں اور منافع کمانے والی مشینیں بنی ہوئی ہیں۔2017میں پال اسٹینی لینڈ، عدنان نصیر ملا اور احسان بٹ نے ایک جائزہ لیا تھا جس میں انہوں نے پایا کہ 141سابق پاکستانی فوجی کور کمانڈروں میں سے 33یا 23.4فیصد کا فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد فوجی فاؤنڈیشن ان اسامیوں پر تقرر کر دیتی ہے۔یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ایف ایف سارت ہزار ریٹائرڈ فوجیوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔اس سے ریٹائرڈ فوجیوں کو اضافی آمدنی ہو جاتی ہے جن کی فاو¿نڈیشن کے ملازمین کے طور پر ملنے والی تنخواہیں ان کی پنشن سے بھی زیادہ ہوتی ہیں اور یہ حکومت ادا کرتی ہے۔

شاہین اور بحریہ فاؤنڈیشنیں بھی اسی راہ پر چل رہی ہیں اور وہ پاکستان فضائیہ اور بحریہ کے سابق اہلکاروں کو ملازمتیں دیتی ہیں ۔ ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ان فاو¿نڈیشنوں کی انتظامیہ کمیٹی ، اور ان کی تجارتی سرگرمیوں بشمول دفاعی افواج کے دیے گئے ٹھیکوں پر بر سر خدمت سینیئر فوجی افسران کے مفادات کے ٹکراؤ کی پاکستان میں کسی کو پروا ہے۔

مجموعی طور پر ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ، تقریباً70فیصد ،پاکستان میں مل بس سے ہے۔پاکستان نیوی وار کالج میں بحریہ ریسرچ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر عائشہ صدیقی اپنی تصنیف میں رقمطراز ہیں کہ ایک اندازے کے مطابق2007میں فوج کی مجموعی آمدنی 10بلین پونڈ تھی۔جو سرسری طور پر اس سال پاکستان کو ہونے والی راست مجموعی غیر ملکی سرمایہ کاری کی چار گنی تھی۔اس کتاب میں جس پر پاکستان میں پابندی ہے، پاکستانی فوج کی کمائی اور اس کے فوجی افسران و سپاہیوں پر بدعنوانی کے پڑنے والے اثر کا ہر پہلو اجاگر کیا گیا ہے ۔

پاکستان کا فوجی عملہ اور ہر جگہ موجود رہنے والی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران آئے روز اپنے استحقاق کے طور پر ملک کی اقتصادیات اور غیر ملکی پالیسیوں میں اس یقین کے ساتھ کہ وہ پاکستان کے قومی مفادات کی تشہیر اور دفاع بہتر انداز میں کر سکتے ہیں، مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ پانچ فاؤنڈیشنوں ،ایف ڈبلیو او ، این ایل سی اور ایس سی او کے زیر انتظام چل رہی متعدد کمپنیاں سے ہونے والا منافع ان کی اضافی مراعات ، چھاؤنی سہولتیں اور زندگی کا نسبتاً پر تعیش معیار اور ان اخرجات میں جو سرکاری خزانہ سے نہیں لیے جا سکتے پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوتاہے۔ علاوہ ازیں یہ منافع مشیروں کے ایک عظیم الشان نیٹ ورک ، مشکوک سودے کرانے مین اپنی خدمات بہم پہنچانے کے خواہشمند سابق فوجی،اسلحہ درآمد کرنے کے لیے غیر ملکی رابطہ کاری اور بدلے میں مل بس کے لیے فوج سے براہ راست یا بالواسطہ ٹھیکے حاصل کرنے والوں کی سرپرستی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔مثال کے طور پر درآمد شدہ تیز رفتار بوٹوں کی دیکھ بھال اور نئی کشتیاں بنانے کے لیے پاکستان کی بحریہ کے ذریعہ دیے گئے ٹھیکوں سے شاہین فاؤنڈیشن کا ایویشن مینٹی ننس ری پئیر اوورہال کاروبارپاکستان کی فضائیہ کی ہوابازی درآمدات و برآمدات اور کشتی سازی اور بحریہ فاو¿نڈیشن کی یارڈز کی مرمت جیسے کام ملتے ہیں۔

:اعلیٰ افسران کے مشکوک حالات

انعام صحری نے اپنی تصنیف ججز اور جنرلز ان پاکستان جلد دوئم میں لکا ہے کہ ساؤتھ ایشیا ٹریبون(شمارہ نمبر 54بتاریخ 10-16اگست 2003) میں ایک پٹیشن شائع ہوئی ہے جو 2003میں لاہور ہائی کورٹ مٰں داخل کی گئی تھی جس میں پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران پر بد عنوانیوں کے الزامات عائد کیے گئے تھے۔اس میں خٓص طور پر ایر چیف مارشل عباس کھٹک (ریٹائرڈ) کا ذکر تھا جنہوں نے 40پرانے میراج جنگی طیاروں کی خریداری کے لیے 180ملین پاکستانی روپے رشوت لی تھی۔ جنرل پرویز مشرف نے لاہور میں ڈیفنس ہاو¿سنگ اتھارٹی میں 20ملین پاکستانی روپے کی مالیت کا ایک تجارتی پلاٹ محض10لاکھ روپے میں(20سال کی قسطوں پر ) خریدا تھا۔اور جنرل جہانگیر نے پاکستانی فوج کے لیے 300یوکرینی ٹینکوں کی خریداری کے لیے ایک بچولیے کے توسط سے ایک یوکرینیائی ٹینک کمپنی سے 20ملین امریکی ڈالر رشوت لی تھی۔اس کے علاوہ کئی اور شرمناک تفصیلات تھیں جس نے پٹیشن کو ایسا دھامکہ خیز بنا دیا تھا ہائی کورٹ نے انتظامیہ کارروائی کے لیے اسے 2003سے سرد خانہ میں ڈال رکھا ہے اور یہ ابھی تک زیر التوا ہے۔

یہ عیاں حقیقت ہے کہ پاکستان میں متعدد سابق جنرلز، ایر مارشلز، اور ایڈمیرلز جو مشیروں، اداروں کے سربراہوں یا کاروباریوں کے طو رپر اپنی دوسری اننگز میں کروڑ پتی بن گئے۔ پاکستانی بحریہ کے سابق سربراہ ریٹائرڈ ایڈمرل عبد العزیز مرزا جوکراچی معاملہ میں( فرانس سے اگستا 90بی آبدوزوں کی خریداری میں رشوت خوری) بدنام ہوئے تھے آج اسلام آباد میں ایک رئیل اسٹیٹ پراجکٹ دی سینتراس کے سی ای او ہیں۔یہ ادارہ زبردست بدعنوانیوں کے باعث وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانچ کے دائرے میں ہے۔
2016 پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی (ریٹائرڈ) پر لیفٹننٹ کرنل طارق کمال (ریٹائرڈ) نے جو ڈی ایچ اے کے سابق عہدیدار ہیں، الزام لگایا کہ اپنے بھائیوں کے تعلقات والی ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ڈ یفنس ہاؤسنگ اسکیم مٰں ایک بڑا اراضی گھپلے میں ملوث ہیں۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل احمد شجاع پاشا کے راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی تجارتی پلازہ ہیں۔

:مل بس کرپشن سے سماجی نقصان

اس سب سے پاکستانی فوج کے تنظیمی کلچر پر منفی اثر اور ملک کی اقتصادیات اور سماجی ترقی پر تباہ کن اثر مرتب ہوتا ہے۔ مل بس کمپنیوں کی اجارہ داری نے توانائی، سمنٹ ، کھاد وغیرہ جیسے کلیدی سیکٹروں میں داخؒ ہونے سے غیر فوجی کاروباری اداروں کو روک رکھا ہے۔

پاکستان میں ایک ریٹائرڈ فوجی کو اراضی اور سرکاری محکموں میں غیر فوجی ملازمتوں کے لیے محفوظ اسامیوں پر تقرر جیسی مراعات کے علاوہ حکومت سے شاندار پنشن ملتی ہے ۔ علاوہ ازیںاگر پنشن لینے والے کسی سابق فوجی کو، فاؤنڈیشنوں کے زیر انتظام چل رہے تجارتی اداروں کے ذریعہ ملازمت کی پیش کش کی جاتی ہے، جو کسی دوسرے ضرورتمند غیر فوجی بے روزگار کو دی جا سکتی ہے، تو اسے ایک اضافی مستقل آمدنی ہونا شروع ہوجاتی ہے ۔اس طرح فوجی بہبود خدمات در حقیقت خود خدمتی دھندہ ہے جس سے پاکستان کے ایک عام آدمی پر کاری ضرب لگتی ہے۔

کچھ سال قبل پاکستان کے معروف اسکالر شجاع شریف نے اپنے مضمون’پاکستان: فوجی کرپشن نے ملک کے غریب کو لوٹ لیا2004اور ”پاکستان: اسلام، بنیاد پرستی اور فوج(2007)میں فوج کی مولہا اور مولا کے ساتھ ناپاک ملی بھگت کی مکمل تفصیل دی ہے۔شریف مزید بیان کرتے ہیں کہ فوجی افسران کو مع ساز وسامان بنگلے ، نوکر چاکر اور معمولی قیمتوںپرراشن کے علاوہ متمول اور دولتمندوں کی کالونیوں میں کوڑیوں کے مول قطعہ اراضی دیے جاتے ہیں، اورف ان کے بچوں کو مفت اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔ان کے اہل خانہ کو معمولی قیمت پر یا مفت صحتی خدمات بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ یہ آسائشیں اور وسائل سماجی سیکٹر سے فوج کو خفیہ راستوں سے پہنچائی جاتی ہیں۔فوجی عملہ بڑے پیمانے پر غیر فوجی اداروں اور عوام کے سامنے غیر جوابدہ رہنے کو ترجیح دیتا ہے۔

امریکی صحافی ایلیٹ ولسن نے 2008میں اپنے ایک مضمون ”کروڑ پتی فوجی جو پاکستان کے سیاسی سماجی اور اقتصادی وسائل کو چلاتے ہیں“میں لکھا ہے کہ فوج اکثر و بیشتر اپنی املاک کے تحفظ میں جاگیردانہ رجحانات کا مظاہرہ کرتی ہے۔2001میں وسطی پنجاب میں جب بے زمین کاشتکاروں نے احتجاج کیا کہ فوج نے انہیںنقد کرایہ ادا کرنے پر مجبور ر کر کے اس زمین کا درجہ بدل دیا ہے جس پر ان کی روزی روٹی منحصر تھی تو فوج نے ایسی بے رحمی کے ساتھ اس بری طرح کسانوں کو رائفلوں کی بٹوں سے پیٹاکہ 8کسان مر گئے۔

بلا شبہ مل بس کی زیادتیوں نے پاکستان کے لیے زبردست مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ اکتوبر2019میں ملی بس کے ایک جزوعسکری بینک لمیٹڈ ان بینکوں میں شامل تھا جن پر اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ضروری تقاضے پورے نہ کرنے پر جرمانہ عائد کیا تھا۔یہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان کی انسدا د منی لانڈرنگ اور انسداد دہشت گرد مالی اعانت قوانین پرفنانشیل ایکشن ٹاسک فورس کے حکم کے مطابق نظر ثانی کر نے کا پابند ہے۔

وقتاً فوقتاً پاکستان پر، اس شکنجہ کو جو فوج نے پاکستان کی سیاست اور اقتصادیات پر کس رکھا ہے ڈھیلا کرنے کی کچھ کوششیں کرنے کے لیے بیرونی دباؤ پڑتا رہا ہے۔داخلی کوششیں زیادہ تر ناکام رہی ہیں۔1990میں مفاد عامہ کے ایک وکیل حبیب الوہاب خیری نے پاکستان کی سپریم کورٹ میں فوج سے وابستہ فاؤنڈیشنوں کے ذریعہ فوج کا نشان استعمال کرنے کو چیلنج کیا تھا۔ انہوں نے ایک پٹیشن داخل کی جس میں کہا گیا کہ فاؤنڈیشنوں کا کاروبار کمپنیز آرڈی ننس 1984اور ٹریڈ مارک ایکٹ 1940کے منافی ہے اور فاؤنڈیشنوں کو اپنی تجارتی سرگرمیوں کو بند کردینا چاہئے۔ لیکن عدالت نے تکنیکی بنیادوں پر عذر داری پر سماعت سے انکار کر دیا۔

ملی بس کی سرگذشت کی طویل فہرست میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج فوج میں اعلیٰ سطح پر پسند ناپسند اور اقرباپروری کا رجحان عروج پر ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان انٹرنیشنل ایر لائنز (پی آئی اے) کو ”باجوا ایرلائنز“ سے پکارا جاتا ہے۔پی آئی اے موجودہ فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوا کا خاندان کے زیر انتظام چل رہی ہے۔فضائیہ کے سابق نائب سربراہ ایر مارشل ارشد ملک ، جو فوجی سربراہ باجوا کے برادر نسبتی (بہنوئی) کے بھائی ہیں،پی آئی اے کے صدر اور سی ای او ہیں ۔ پی آئی اے کی سابق ایچ آر چیف اسماءباجوا چیف آف جنرل اسٹاف جنرل باجوا کی بھاوج ہیں۔ جنرل باجوا کے دو بھائیوں کو پی آئی اے کے افسران بالا کے طور پر بریو کے کے برمنگھم میں تعینات ہیں۔پی آئی اے کا حال ہی میں اس وقت خبروں میں بہت چرچا رہا جب 23مئی کو اس کا ایک طیارہ حادثہ تباہ ہو کر کراچی ہوائی اڈے کے قریب ایک رہائشی علاقہ پر جا گرا جس میں97افراد ہلاک اور متعدد مکانات نذر آتش ہو کر ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گئے۔

ایسا نہایت مشکل نظر آتا ہے کہ عمران خان کی موجودہ سلیکٹڈ حکومت مل بس جال کو ،جس پر فوجی کے انٹیلی جنس آئی ایس آئی کا دست شفقت ہے ،ذرا بھی ادھیڑ سکے گی۔پاکستان کی واحد امید اس کے لچکدار مگر حوصلہ مند معاشرے اور صحافیوں کا ایک مختصر مگر جری و بیباک کیڈر ہے جو مشرف اور ایوب خان جیسے فوجی تانا شاہوں کو پریشان اور معزول کر نے کرانے میں نمایاں کردار ادا کرچکا ہے۔ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان میں ملی بس چینی کورونا وائرس وبا سے مطابقت رکھتا ہے۔اس کے جراثیم بیک وقت ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیںلیکن اس کا کوئی ٹھوس اور حتمی علاج نہیں ہے۔ یصرف جدید اور ٹھوس خارجی و داخلی اقدامات سے ہی پاکستان مل بس کے شر و شیطانیت پر ،جس نے اس کی سیاسی معیشت کو ایذا پہنچا رکھا ہے،قابو پا سکتاہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں اور ادارہ اردو تہذیب کا متفق ہونا ضروری نہیں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *