From flipping burgers to Harvard. A story of an Afghan Sikh refugeeتصویر سوشل میڈیا

افغان نژاد سکھ مہاجر اونیت سنگھ مارٹا نے، جس کی کی زندگی گھر پکارے جانے والے ایک مقام کی تلاش سے لے کر ایک فاسٹ فوڈ ریستوراں میں خانساماں کی ملازمت کرنے جیسے نامساعد حالات سے نمٹتے اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے گذری، اپنے اور اپنے اہل خاندان کے لیے ایک اور سنگ میل عبور کیا ہے۔ اپنے خاندان کا وہ پہلا چشم و چراغ ہے جو ہارورڈ یونیورسٹی کا فارغ ہے۔جہاں سے اس نے گریجویشن مکمل کیا۔

اپنے فیس بک صفحہ پر الیکٹریکل انجینیئرنگ گریجویٹ لکھتا ہے:” میںجس وقت ایک ماہ کا بھی نہیں ہوا تھا کہ میرے والدین نے افغانستان چھوڑ دیا اور ہالینڈ میں پناہ چاہی۔ اور پھر انہوں نے ملک بہ ملک نقل مکانی شروع کر دی تاکہ ان کے بچے وہ تعلیم حاصل کر سکیں جو وہ کبھی نہیں پا سکے۔ میں نے اپنے یونیورسٹی کے ابتدائی ایام میں تین ملازمتیں کیں اور کالج میں جی پی اے (گریڈ پوائنٹ ایویرج) کے ساتھ ساتھ میری دماغی صحت بھی گرنا شروع ہو گئی۔میں نے کپڑے ڈرائی کلین کر کے گھر گھر پہنچانے، ریستورانوں میں کام کرنے ، گھروں کے در و دیوار اور فرش کی رگڑائی اور صفائی کرنے، سیلز مین اور تقریبات و عوامی اجتماع میں لوگوں کی ان کی سیٹوں تک رہنمائی کرنے جیسے کام بھی کیے۔

میں ایک سکھ ہوں۔ میں ایک افغان ہوں ۔میں ایک مہاجر ہوں۔ میں اپنے خاندان کا پہلا کالج طالبعلم ہوں ۔اور آج میں ہارورڈ کا فارغ ہوں۔“یہ خبر ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب افغانستان میں سکھوں کی جان کو خطرہ ہے۔ مارچ میں بندوق برداروں نے کابل کے ایک گرودوارے میں گھس کر وہاں عبادت میں مشغول لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر 26 زائرین کو شہیدکردیا۔ یہ اقلیتی برادری پر ایک اور حملہ تھا۔ اس واقعے نے افغان سکھوں کو افغانستان سے نقل مکانی کرنے کی کوششوں میں اور زیادہ شدت پیدا کردی کیونکہ ان کی جان کو خطرہ تھا۔

اوونیت کوئی معمولی طالب علم نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ لکھتا ہے کہ اس کے والدین کو اس وقت افغانستان چھوڑنا پڑا تھا جب وہ ایک ماہ کا بھی نہیں ہوا تھا ۔ وہ افغانستان سے بھاگ کر ہالینڈچلے گئے ، جہاں وہ آٹھ سال رہے اور پھر انگلستان منتقل ہو گئے۔ہارورڈ میں بھی اوونیت بیکار نہیں بیٹھا ۔ وہ امریکی یونیورسٹی کی بھنگڑا ٹیم میں سرگرمی سے شامل ہوگیا جس میں اس نے دوبارہ جان ڈال دی۔ جس وقت اس نے پہلی بار ہارورڈ بھنگڑا میں شمولیت اختیار کی تو بھنگڑا گروپ دم توڑ رہا تھا۔ بھنگڑے کی مناسب قیادت نہ ہونے کے ساتھ ساتھ تقریبات اور پروگراموں میں بھی بھنگڑا گروپ کم شرکت کرتا تھا۔

کالج میگزین ہارورڈ کرمپسن کی خبر کے مطابق مارٹا نے ایک دوسرے سال کے طالبعلم کے طور پر اس امید پر بھنگڑا گروپ میں شمولیت اختیار کی اور بھنگڑا کے لئے ایک بورڈ تشکیل دینے میں مدد کی کہ یہ گروپ بھنگڑا کو نئی زندگی بخشے گا اور فروغ دے گا ۔ میگزین نے یہ بھی لکھا ہے کہ اونیت نے ہارورڈ برٹش کلب کو دوبارہ زندہ کیا اور وزیر اعظم جیسا کردار ادا کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *