تہران:(اے یو ایس ) کچھ دن پہلے حزب اللہ کے ایک رہنما نے اعلان کیا کہ ملک میں داخل ہونے والے ایرانی ایندھن کے ٹینکر شام کی بندرگاہ بانیاس سے آئے ہیں۔ یہ آئل ٹینکر ایران کی طرف سے ایندھن کے بحران کا شکار لبنانی عوام کے لیے ایک تحفہ ہیں۔ مگر ایرانی پارلیمنٹ کی توانائی کمیٹی کے ر±کن نے حیران کن انکشاف کیا ہے۔ایرانی پارلیمنٹ کی توانائی کمیٹی کے ایک رکن ہادی بیکی نژاد نے کہا ہے کہ لبنان کو بھیجا جانے والا ایرانی ایندھن مفت نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان ترسیل کی قیمت ادا کی گئی۔انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ یہ ایندھن کی رقم تہران پہنچی ہے۔ انہوں نے یہ بات دہرائی کہ ایندھن کی ترسیل یقینی طور پر مفت نہیں تھی۔
ایران انٹرنیشنل ویب سائٹ کی رپورٹ کے مطابق ایرانی عہدیدار نے بتایا کہ ایران کے اس دعوے کے عین مطابق کہ ہمسایہ ممالک اور وینزویلا اور لبنان جیسے ہم خیال ممالک کے ساتھ تعاون جاری رکھنا چاہیے اور ان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے، ایرانی ایندھن کے ٹینکر اس مہینے کے وسط میں لبنان میں داخل ہوئے۔ تیل سے بھرے یہ ٹینکر پڑوسی ملک شام سے آئے مگر اس پر لبنان ریاست خاموش ہے اور اس پر کوئی سرکاری رد عمل سامنے نہیں آیا۔پہلی کھیپ 80 ٹینکروں پر، جو 40 لاکھ لیٹر ایندھن لے کر لبنان داخل ہوئے، مشتمل تھی۔ یہ تمام ایندھن بعلبک اور دوسرے شروں میں’الامانہ‘ پٹرول اسٹیشنوں پر اتارا گیا۔ یہ پٹرول اسٹیشن نیٹ ورک حزب اللہ کی ملکیت قرار دیا جاتا ہے اور 2020 میں امریکا نے اسے بلیک لسٹ کر دیا تھا۔اسی طرح سماجی کارکنوں نے ان مناظر پر تبصرہ کیا جب حزب اللہ کے ارکان کو ایندھن کے ٹرکوں کے قریب ہوا میں گولیاں فائر کرتے دیکھا گیا۔
شہریوں نے تنقید کی کہ اگراس ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں کوئی گولی کسی ٹینکر کو لگ جائے تو یہ جشن ماتم میں بدل سکتا ہے۔امریکی صدر جو بائیڈن کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف اسٹیٹ کے عہدے کے امیدوار باربرا لیف نے کہا ہے کہ ایرانی ڈیزل ٹینک صرف حزب اللہ کی چال تھی جس کا مقصد عوام میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایرانی ایندھن لبنانی عوام کے مسائل حل نہیں کرے گا اور نہ ہی توانائی اور معیشت جیسے بڑے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔لیف نے امریکا کی جانب سے سیزر ایکٹ سے متعلق کچھ پابندیاں اٹھانے کے لیے کھلے پن کا اظہار کیا تاکہ مصر اور اردن سے شام کے ذریعے لبنان کو گیس اور بجلی کی ترسیل میں سہولت ہو۔انہوں نے کہا یہ خطے کے ممالک کی طرف سے تجویز کردہ حل ہے اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں عالمی بینک بھی اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محکمہ خارجہ اس وقت امریکی قوانین اور پابندیوں کی پالیسی کے فریم ورک کا بغور مطالعہ کر رہا ہے۔