Furure of private contractors in Afghanistanتصویر سوشل میڈیا

قادر خان یوسف زئی

افغانستان میں ہزاروں افغانی پرائیوٹ کنٹریکٹر زکے ساتھ آگے کیا ہوگا،انہوں نے تو اپنا مستقبل یورپ، برطانیہ اور امریکہ کے کہنے پر داو¿ میں لگا دیا تھا کہ شائد یہ ممالک ہمیشہ کے لئے افغانستان پر قابض رہیں گے یا پھر ان کے شہروں کو نیویارک، لندن، پیرس اور برلن بنا دیں گے لیکن مسئلہ پیدا ہوگیا کہ سب کو امریکہ میں نہیں رکھا جاسکتا اور دنیا کے دوسرے ممالک بھی محتاط ہیں لیکن پاکستان سمیت وسط ایشائی ممالک پر دباو¿ بڑھا یا جارہا ہے کہ مہاجرین کے علاوہ ان کے لئے کام کرنے والے،(جاسوسوں) کو بھی مکمل سیکورٹی کے ساتھ پناہ دی جائے۔ یورپ اور امریکہ کا یہ مطالبہ دراصل زمینی حقائق کے برخلاف، مزاج اور سوچیں حتیٰ کہ افغانستان میں طبقاتی تفریق کا سبب بنتا جارہا ہے کیونکہ 31 اگست تک ممکن نہیں کہ کابل میں موجود تمام پرائیوٹ کنٹریکٹرز کا انخلا کردیا جائے، بلکہ اطلاعات ہیں پاکستان سمیت افغانستان کے دوسرے حصوں سے بھی بڑی تعداد نے کابل ائیر پورٹ کا رخ کیاہے،چونکہ افغان طالبان کا رویہ(تاحال) مثبت ہے اس لئے انہیں ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے کے لئے مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کا یہ کہنا اس حد تک درست ہے کہ افغانستان میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، تو اس کا ذمے دار صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ یورپ، برطانیہ سمیت وہ عالمی قوتیں ہیں جو سلامتی کونسل میں بیٹھ کر کسی بھی ملک پر الزام لگانے کے بعد اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ہیں اور مقصد پورا ہونے کے بعد خراماں خراماں چل دیتے ہیں۔

پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو ٹرانسفر کرانے کے لئے 31 اگست کی ڈیڈ لائن ناکافی تصور کی جا رہی ہے، اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ انہوں نے اپنے سفارت خانے بند اور عملہ واپس بلا کر کمرشل فلائٹس پر بھی پابندی عائد کردی اور جوکنٹریکٹرز ڈیلی ویجز یا مخبری کی مد میں انعام کی لالچ کے لئے کام کرتے تھے، انہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے کا حتمی فیصلہ بھی کرلیا۔ کابل ائیر پورٹ کے مناظر باعث عبرت ا±ن لوگوں کے لئے ہیں، جنہوں نے استعماری قوتوں کے لئے خودکو استعمال کرایا اور اب انہیں بیکار ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا، سابق کابل انتظامیہ کی ایک بڑی تعداد کابل کے مکمل ٹیک اوور سے پہلے ہی کمرشل فلائٹس سے بیرون ملک نکلنے میں کامیاب ہوچکی تھی اور ہوش آنے تک پرائیوٹ کنٹریکٹر یہی سمجھتے رہے کہ ان کے ساتھ کئے گئے امریکی وعدے ایفا ہوں گے۔ درحقیقت امریکہ چاہے تو چند دنوں میں ہی کمرشل پروازوں سے پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو باہر نکال سکتا ہے، ٹرانزٹ کے لئے پاکستان سمیت عرب ممالک، امریکہ کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کے لئے تیار ہیں، لیکن امریکہ کو خود ا ن پرائیوٹ کنٹریکٹرز پر اعتبار نہیں، کیونکہ جو ڈالروں کی لالچ میں مادر وطن اور ضمیر کا سودا کرسکتا ہے تو وہ ان کے خلاف بھی بھاری رشوت کے عوض، کسی کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے۔(کابل دھماکے بھی اس کی ایک مثال سمجھی جاسکتی ہے)۔

پرائیوٹ کنٹریکڑز نے افغان طالبان کی سرگرمیوں پر مخبریاں کیں، درست یا غلط معلومات دیں، جن کی اطلاع پر فضائی حملے اور آپریشن کئے گئے اور بے گناہ نہتے عام افغانی بھی جاں بحق ہوئے۔لواحقین جانتے ہیں کہ ان کے بچوں کا قاتل کون اور سہولت کاری کس نے کی، لہذا پرائیوٹ کنٹریکٹرز اس امر سے بھی شدید خوف زدہ ہیں کہ افغان طالبان کی عام معافی کے اعلان کے باوجود لواحقین، روایات کے مطابق ان سے بدلہ ضرور لیں گے، یہ افغانستان سمیت دنیا کے کسی بھی کونے میں چلیں جائیں لیکن ان کا ضمیر، انہیں ہراساں کرتا رہے گا کہ ڈالروں کی لالچ میں انہوں نے امریکہ اور اتحادیوں کو غلط معلومات بھی دیں، جس کے باعث ان گنت افغانی زیر حراست رہے اور سیکڑوں جانوں کا نقصان بھی ہوا۔ یہ ایک بہت بڑا امتحان بن سکتا ہے کہ افغان طالبان کی موجودگی میں ایسے لواحقین انصاف کے لئے، پرائیوٹ کنٹریکٹرز کے خلاف مقدمات دائر کرسکتے ہیں اور ظاہر ہے کہ افغان طالبان جب فیصلہ کریں گے تو اس پر مغرب اور امریکہ نے تو شور مچانا ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ افغان طالبان کا عام معافی کا اعلان اپنے خلاف کئے گئے حملوں تک محدود رہے گا لیکن جب مدعی سامنے آکر اپنا ذاتی مقدمہ رکھے گا تو افغان طالبان بھی کچھ نہیں کرسکتے، کیونکہ انہوں نے وہی فیصلہ کرنا ہوگا جو اسلامی قانون کا حکم ہے۔

خارج از امکان نہیں افغان طالبان، امریکہ کو لاسٹ ڈیڈ لائن دینے کے باوجود دنیا میں مثبت تاثر قائم کرنے کے لئے مزید مہلت بھی دے دیں، کیونکہ کابل میں چھ ہزار امریکی اور 600 برطانوی فوج پر حملہ کرکے نئی جنگ کی بنیاد رکھنا نہیں چاہیں گے، اس لئے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر پرائیوٹ کنٹریکٹرز کو جانے کی اجازت کے لئے مہلت ملنے کا امکان موجود ہے، اس کے علاوہ بھی یہ ہزاروں کا جمع غفیر کہاں جائے گا، کیا یہ واپس اپنے گھروں میں جاسکتے ہیں، شائد یہ فیصلہ کرنا ان کے لئے مشکل ہوگا کیونکہ ان کی مخفی پہچان اب منکشف ہوچکی، اس لئے ان پر سماجی دباو¿ بڑھے گا۔ وسط ایشیائی ممالک انہیں قبول کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں، ایران نے پہلے ہی اتنی سخت پابندیاں افغان مہاجرین پر عائد کی ہوئی ہیں، جس کے بعد وہاں امریکی پرائیوٹ کنٹریکٹرز کا رہنا مشکل ہے، ان کے لئے آئیڈیل ملک پاکستان بچ جاتا ہے، جہاں وہ مہاجرین کے ریلے کی صورت میں یا سفارت خانے میں قانونی دستاویزات کی آڑ لے کر آسکتے ہیں۔جہاں پہلے ہی 30 لاکھ سے زائد افغانی ایک عام پاکستانی شہری کے طرح نقل و حرکت کرتے ہیں، لہذا ن کا پاکستان کے کسی بھی علاقے میں چھپ جانا اور نئی شناخت کے ساتھ ایک بار پھر امریکہ اور مغربی ممالک کے لئے سہولت کار بننا خارج از امکان نہیں۔

اس امر کا ڈر تو ہوگا کہ انہیں شناخت نہ کرلیا جائے، لہذا یہ کہنا کہ کابل ائیر پورٹ پر معاشی بدحالی اور افغان طالبان کے خوف سے انخلا کیا جارہا ہے، تو اس کا اطلاق پورے افغانستان پر ہوگا۔ عالمی اداروں کو 20برس کی جنگ کے خاتمے کے بعد تعمیر نو کے لئے امداد دینی چاہیے تھی لیکن الٹا اربوں ڈالرز منجمد کردایئے۔ عالمی برداری کو سوچنا ہوگا کہ کیا یہ عمل افغانستا ن کے حق میں بہتر ہے؟۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *