اسما طارق،گجرات
سماں تھا کہ بیان سے باہر
خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا
یوں کہ ہر طرف
بہار ہی بہار تھی
اچانک اذان کی آواز سے
آنکھ کھولی
دل شادمان تھا
محو رقصم تھا
دادی کے کمرے کی
بتی جلتی ہوئی دیکھتی تو
ننگے پیر ہی انہیں
خواب سنانے بھاگی
آخر ان کی منتیں،
قبول ہونے والی تھیں
کہ اچانک خیال آیا
چپ چاپ
آنسو چھپائے
واپس لوٹ آئی
تم تو تب نہیں آسکتے تھے
جب دنیا آزاد تھی
اب تو بات ہی مختلف
جانے یہ تمہارا جہاد کب ختم ہوگا
کب آزادی کی نوید لیے
تم لوٹے گے
پتا دادی سے
لوگ کہتے ہیں
تم اب نہیں آنے والے
وہ نہیں مانتیں
اور نہ کسی اور کو ماننے دیتیں
اور میرا دل
وہ تو ہے ہی تمہارے پاس
پتا روز خواب سجتے
اور روز ٹوٹتے
بس اسی آس پر
اب تو سانس چلتی ہے
کبھی تو ہماری طرف بھی
پھول کھلیں گیں
ای میل:trqasma2511@gmail.com