اسماءطارق ،گجرات
جب کے گئے ہو، لوٹے نہیں
جانے کہاں ہو،کس دیس میں ہو
تمہارا انتظار ہے، سب کو
مجھے بھی تھا ، مگر نہیں
ہاں جب کبھی حالات تھکا دیں
تو تمہاری یاد پکار بن جاتی ہے
یوں کہ جیسے تم سن رہے ہو
اور ابھی لوٹ آو گے
دل بھی آس لگائے بیٹھا ہو جیسے
گویا کہ تم سب ٹھیک کر سکتے ہو
جیسے کہ کوئی جادوگر ہو
مگر سچ تو یہ ہے کہ
تم بہت دور جا چکے ہو
جہاں سے لوٹ نہیں سکتے
پر دل ہے کہ مانتا ہی نہیں
کہ تم بھی ایک عام انسان ہو
حالات کی گردش میں جکڑے
وقت کی زنجیر میں بندھے
یہاں تک کہ خود
اپنی ذات کے قفس میں قیدی
جہاں عہد تو ممکن ہے
مگر نبھا نہیں سکتے
انتظار تو اٹل ہے
مگر لوٹ نہیں سکتے
تم لوٹ بھی آئے تو کیا ہو گا
پھر سے وہی لوگ وہی فسانے
تم بھی لڑتے لڑتے تھک جاو گے
ای میل:trqasma2511@gmail.com