پریم ناتھ بسمل
عشق میں میں بھی بہت بد نام ہو کر رہ گیا
میرا تیرا ہر فسانہ عام ہو کر رہ گیا
گھر مرا ساحل پہ پھر بھی تشنگی دل میں مرے
دل تری محفل میں خالی جام ہو کر رہ گیا
تو ہی قاتل، تو ہی منصف، تو ہی سب کچھ ہے یہاں
میں تری الفت میں اک الزام ہو کر رہ گیا
چاند نکلا، تارے نکلے، پر نہ نکلا تو صنم
سونا سونا میرے گھر کا بام ہو کر رہ گیا
عشق میں تیرے گنوا دی میں نے اپنی زندگی
کیا سبب ہے پھر بھی میں ناکام ہو کر رہ گیا
وہ زمانہ اور تھا اب یہ زمانہ اور ہے
یہ سمجھ لو میں پکا سا آم ہو کر رہ گیا
کیا سناؤں داستاں بسمل تجھے اسں رات کی
وصل کا قصہ خیالِ خام ہو کر رہ گیا
premnath178@gmail.com