قادر خان یوسف زئی
گذشتہ ہفتے ہیجان خیزی کا شکار رہے ، مملکت افوہوں کی زد میں اور عوام بے یقینی صورت حال میں ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آئے کہ آخر ہوکیا رہا ہے ؟ ،حالات کیسے ہیں ، یہ میں کیا سن رہا ہوں ، وغیرہ وغیرہ ۔تجزیہ نگار یا خبر رساں موجودہ حالات کے بابت کھل کر کچھ کہنے سے قاصر تھے، ہمارا معاشرہ و میڈیا ابھی اتنا بالغ نہیں ہوا کہ حالات و واقعات کی غیر جانب دارنہ ومنصفانہ رپورٹنگ پربردباری سے کام لے ، عدم برداشت کے رجحان نے کئی معاملات کی صورت حال کو منفی نکتہ نظر سے دیکھا جانے لگا ہے ، بدقسمتی سے میڈیا میں غیر جانب داری و اظہار رائے کی آزادی کے فقدان نے درست و شفاف رپورٹنگ کے معیار کو متاثر کیا ہے ، اس لئے حکومتی بلاک یا مخالف دھڑے کا حصہ بننے کے باعث تحفظات رہتے ہیں کہ بعض نیوز چینلز حالات کی درست نشان دہی نہیں کریں گے ۔
مملکت خداد پاکستان جہاں جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے تو دنیا بھر میں 57 مسلم اکثریتی ممالک کے مقابلے میں لسانی ، ثقافتی و مذہبی اکائیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں، دیگر مسلم اکثریتی ممالک کے مفادات و ترجیحات کا تعین حالات کے مطابق یو ٹرن لینے میں نہیں بلکہ مستقل خارجہ پالیسی کے تحت ہوتا ہے ، جہاں جذباتیت سے زیادہ ملکی مفادات کو مقدم رکھا جاتا ہے ، تاہم وطن عزیز میں پالیسیاں گرگٹ کی رنگ کی طرح تبدیل ہوتی رہتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ماورا ءآئین ایسے اقدامات کر دیئے جاتے ہیں جس کے مضر اثرات پر بعد میں غور ہوتاہے۔ 2007میں آپریشن راہ حق کے بعد حکومت کا سب سے بڑا فیصلہ سوات آپریشن کے بعد کالعدم جماعت سے معاہدہ تھا ، گو کہ اُس وقت ایک لبرل سیکولر سرخ پوش جماعت اے این پی کی صوبائی حکومت تھی لیکن کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی ﷺسے قیام امن کے خاطر مارچ 2009میں ’ سوات معاہدہ عدل ‘کیا گیا ۔ پارلیمنٹ میں یہ معاہدہ لایا گیا ، سابق صدر زرداری نے بھی اس پر دستخط کئے ، اس سے قبل ایم کیو ایم کے علاوہ تمام پارلیمانی جماعتوں نے تحریک نفاذ شریعت محمدی ﷺ اور حکومت کے درمیان معاہدہ عدل کی منظوری دی تھی ، اس عمل سے وقتی طور پر خانہ جنگی کا خاتمہ ہوا۔ واضح رہے کہ نظام عدل ریگولیشن کوئی نیا معاہدہ نہیں بلکہ وزیر اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ اور وزیر اعلیٰ سرحد مہتاب خان عباسی نے بھی ایسے معاہدے کئے لیکن ان پر پوری طرح عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
کالعدم تحریک طالبان سوات نے حکومتی رٹ کو چیلنج کرنا جاری رکھا، جس کے باعث ریاستی اداروں کو2009میں آپریشن راہ راست کرنا پڑا ۔ آپریشن کے نتیجے میں کالعدم تحریک کا سربراہ سوات سے فرار ہوگیا ۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی ﷺکے سربراہ صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ نے افغان سرزمین سے بھی وطن عزیز کے خلاف دہشت گردی جاری رکھی اور ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان پہنچایا۔کالعدم جماعت نے2014کو اے پی ایس سانحے میں ملک و قوم کو شدید تکلیف و اذیت سے دوچار کیا، اس سے پہلے حکومت نے کوشش کی کہ انہیں دہشت گردی کی کاروائیوں سے، باضابطہ مذاکرات کے ذریعے روکنے کی کوشش کی جائے ، یہاں تک کہ موجودہ وزیر اعظم نے اکتوبر2013میں کالعدم جماعت کو پشاور میں اپنا دفتر کھولنے کے لئے پیش کش کی ، جسے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے شکریہ کے ساتھ رد کردیا ۔
امن کو ایک موقع اور دو ، موجودہ وزیراعظم کا سلوگن تھا ، جس میں انہوں نے کالعدم جماعت کو قومی دھارے میں لانے کے لئے بات چیت کا راستہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا ، عمران خان کے اسی مشورے پر عمل کرتے ہوئے اتفاق رائے سے نواز شریف نے کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کے لئے ٹیم تشکیل دی ، جس کی سربراہی مرحوم مولانا سمیع الحق کو2014میں سابق وزیر اعظم نے دی تھی تاکہ کالعدم جماعت کے سربراہ سے مذاکرات کی راہ ہموار ہوسکے ۔ خیال رہے کہ افغانستان کے(افغان) طالبان، پاکستانی طالبان سے لاتعلقی کا اعلان کرچکے تھے ۔ افغانستان و پاکستان کے طالبان کی پہچان الگ تھی ، افغان طالبان اپنی سرزمین پر امریکہ کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کررہے تھے ، جب کہ پاکستان طالبان ملک دشمن عناصر بالخصوص بھارت کی فنڈنگ سے ملک و قوم کو نقصان پہنچا رہے تھے اور ہیں۔ریاستی اداروں نے آپریشن بلیک تھنڈر سٹورم ، آپریشن خیبر ، آپریشن راہ راست ، آپریشن راہ نجات کے بعد اے پی ایس سانحہ کے بعد فیصلہ کن آپریشن ضرب عضب 2014 میں کیا ، جس کے نتیجے میں دہشت گرد تنظیموں کے نیٹ ورک کا خاتمہ ہوا اور وہ افغان سرزمین فرار ہوئے، آپریشن کی کامیابی کے بعد، آپریشن ردالفساد ملک بھر کی سطح پر ٹارگٹڈ بنیادوں پر شروع کیا گیا جو اب بھی جاری ہے۔ ریاست کی جانب سے انتہا پسندی کے خلاف اٹل کاروائی میں سیاسی مصلحت یا مفاہمت کا کوئی پہلو نہیں تھا ، اداروں نے آپریشن کرنے سے قبل تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد لیا اور سیاسی قیادت کی اجازت کے بعدامن قائم ہونے تک کامیاب آپریشن کئے۔
موجودہ سیاسی حالات میں مذہب کارڈ کا استعمال تشدد کی جانب بڑھا ، بعض سیاسی جماعتیں مذہبی کارڈ کا استعمال کسی نہ کسی شکل میں ضرور کرتی ہے ۔ سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے ، کیونکہ سیاست میں ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہی پنہاں ہے ، تاہم موجودہ حالات میں کچھ عجلت پسندی و زمینی حقائق و عوامی جذبات سے متعلق غلط اندازوں نے پورے ملک میں بے یقینی و افوہوں کو پھیلنے میں مدد دی ، سیاسی بصیرت کی کمی واضح نظر آئی ۔ ہمیں اپنی سماجی ڈھانچے کے مطابق تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس کے لئے حکومت کو اب بھی درست راہ اپناتے ہوئے حزب اختلاف کے ساتھ ہر سیاسی معاملے پر بھی بات چیت کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔