اسلام آباد: پاکستان میں اقلیتیں اور احمدیہ برادری خطرے میں ہے۔ بلوچستان میںسکھ فوج کے کمانڈر انچیف ہری سنگھ نلوا کے مجسمے کو مسمار کیے جانے کے بعد صوبہ پنجاب میں احمدیہ برادری کی 45 قبروں کی بے حرمتی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ پاکستانی صحافی اعجاز سید نے ٹویٹر کے ذریعے ضلع حافظ آباد میں قبروں کے ساتھ ہونے والی بے حرمتی کے بارے میں معلومات دی اور واقعے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ 1974 میں پاکستان کی پارلیمنٹ نے احمدیہ کمیونٹی کو غیر مسلم قرار دیا تھا۔ یہ ملک کی سب سے زیادہ ستم رسیدہ اقلیتی برادریوں میں سے ایک ہے۔
صحافی اعجاز سید نے ٹویٹ کیا کہ ضلع حافظ آباد کے پریم کوٹ میں پنجاب پولیس نے مبینہ طور پر احمدیہ برادری کی 45 قبروں کی بے حرمتی کی ہے۔ کسی بھی کمیونٹی کے خلاف ظلم و ستم بنیادی انسانی حقوق اور اسلامی اقدار کی خلاف ورزی ہے۔ حکومت کو ایکشن لینا چاہیے۔ معلومات کے مطابق سال 2020 میں برطانیہ میں قائم آل پارٹی پارلیمانی گروپ (اے پی پی جی)کی ایک تفصیلی رپورٹ میں پاکستان کی احمدیہ کمیونٹی کے ساتھ تفریق آمیز برتاؤ کا انکشاف کیا گیا ہے۔ اے پی پی جی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو احمدیوں سے نفرت کرنا سکھایا جاتا ہے ۔
آل پارٹی پارلیمانی گروپ نے پاکستان میں احمدیہ مخالف قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اس معاملے کے حوالے سے حکومت پاکستان کے سامنے چند اہم مطالبات بھی رکھے تھے۔ ان میں احمدیہ کمیونٹی پر سے پابندیاں ہٹانا اور پاکستان میں تمام مذہبی برادریوں کے لیے مذہب کی مکمل آزادی کو یقینی بنانا شامل تھا۔ واضح ہو کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں احمدیہ برادری پر تشدد دیکھا جا رہا ہے۔ یہی نہیں احمدیہ برادری کی قبروں کو بھی شدت پسندوں نے نشانہ بنایا ہے۔ جس کی وجہ سے احمدیہ برادری بھی وہاں سے مسلسل نقل مکانی کر رہی ہے۔ لیکن عمران حکومت ان پر حملوں کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔
