سبھاش چوپڑا
انگلینڈ میں مجھے سب سے پہلی ملازمت ایک برطانوی نژاد امریکی ایڈیٹرہیرولڈ ایوانز نے،جن کا حال ہی میں انتقال ہوا ہے،ہی دی تھی۔
انہوں نے مجھے انٹرویو کے لیے بلایا اور دوران انٹرویو نہایت بے تکلفانہ تبادلہ خیال کیا۔ وہ 60کے عشرے میں ہندوستان آئے تھے اور انہوں نے دہلی کے اس اخبار کے ایڈیٹر کے بارے میں جہاں میں نے سب ایڈیٹر/رپورٹر کے طور پر کام کیا تھا، بہت خراب رائے قائم کی۔
دہلی کے اس اخبار کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا کہ دہلی کے اس روزنامہ کا مالک دھوکے باز لٹیرا ہے۔ جس پر میں نے کہا کہ سارے ہی مالکان ایسے ہوتے ہیں۔
بلاشبہ انہیں میری یہ بات اچھی نہیں لگی لیکن انہوں نے اس کا برا نہیں مانا اور اس سے زیادہ حیرت مجھے اس پر ہوئی کہ انہوں نے بطور سب ایڈیٹر میرا تقرر کر دیا۔وہ نارتھ آف انگلینڈ نیوز پیپرز گروپ کے، جس میں ڈارلنگٹن سے بہت زور شور کے ساتھ قریبی اسٹیشن اسٹاک ٹن جانے والے دنیا کے پہلے اسٹیم انجن کے لیے معروف شہر ڈارلنگٹن سے شائع ہونے والا ناردرن ایکو بھی شامل تھا، چیف ایڈیٹر تھے ۔
سر ہیرولڈ ایوانز بذات خود ایک انجن ڈرائیور کے بیٹے تھے۔اس بہترین اور خوشگوار ملاقات کے چند سال بعد مجھے ایک بار پھر ان کے ساتھ دی ٹائمز لندن میں ، جہاں وہ تھامپسن نیوز پیپرز کی ملکیت میں شائع ہونے والے سنڈے ٹائمز میں طویل عرصہ تک کام کرنے کے بعد ایڈیٹر کے طور پر آئے تھے، کام کرنے کاموقع ملا۔لیکن دی ٹائمز میں ان کی مدت ملازمت اس وقت کے میڈیا کے بے تاج بادشاہ روپرٹ مردوک سے ،جنہوں نے دی ٹائمز اور دی سنڈے ٹائمز خرید لیا تھا ،ادارتی پالیسی پر اختلاف رائے ہوجانے کے باعث بہت مختصر رہی۔
انہوں نے ایک کھوجی صحافی کے طور پر کئی معرکے سر کیے ان میں سے ایک مجھے اچھی طرح یاد ہے جس میں انہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے وقت پاکستان کی بربریت اور مظالم کو سنڈے ٹائمز میں دو صفحات پر محیط مضمون میں بے نقاب کیا تھا۔ ہیری الوداع، ہیری کو ان کے دوست احباب و مداح پیار میں اسی نام سے پکارتے تھے۔آپ نے جرنلزم کی دنیا میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے وہ ہمیشہ یاد رہیں گے۔