Grenade blast at Afghan cricket match killed two spectatorsتصویر سوشل میڈیا

کابل:(اے یو ایس ) افغانستان کے دارالحکومت کابل میں جمعہ کو کرکٹ میچ کے دوران ہونے والے دستی بم کے دھماکے سے ہونے والی اموات کی تعداد دو ہو گئی ہے۔حملے کی ذمہ داری اب تک کسی بھی تنظیم کی طرف سے قبول نہیں کی گئی۔ تاہم امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں گزشتہ ایک برس میں دہشت گردی کی بیشتر کارروائیوں میں شدت پسند تنظیم داعش ملوث رہی ہے، اس لیے اس واقعے میں بھی وہ ملوث ہو سکتی ہے۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جمعہ کو کابل کے انٹرنیشنل کرکٹ اسٹیڈیم میں ہونے والے دھماکے میں ابتدائی طور پر 13 افراد زخمی ہوئے تھے۔ واضح رہے کہ کرکٹ میچ دیکھنے کے لیے سیکڑوں افراد گراو¿نڈ میں موجود تھے۔دھماکے کے بعد اٹلی کے زیرِ انتظام کابل کے ایمر جنسی اسپتال نے سوشل میڈیا پر تصدیق کی کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے 12 افراد کو طبی امدا د کے لیے اسپتال لایا گیا ہے جب کہ دیگر زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا تھا۔

طالبان کی طرف سےنامزد کردہ پولیس ترجمان خالد زردان کا ہفتے کو کہنا تھا کہ دھماکے سے دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں افراد کی اموات دھماکے میں اسی وقت ہوئیں یا ان کو علاج کے لیے اسپتال لایا گیا تھا۔دھماکے کے سبب بندے امیر ڈریگنز اور پامیر زلمی کے درمیان کھیلا جانے والا میچ کچھ دیر کے لیے روکا گیا تاہم اسے بعد میں دوبارہ سے شروع کر دیا گیا تھا۔اس میچ کا انعقاد ڈومیسٹک ٹی ٹوئنٹی شپگیزا کرکٹ لیگ کے تحت کیا گیا تھا جو کہ ہر سال منعقد ہوتی ہے۔افغانستان میں کرکٹ ایک مقبول کھیل ہے۔طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد داعش کی خطے میں منسلک شاخ داعش خراسان نے کابل اور دیگر حصوں میں ہونے والے دھماکوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔افغانستان میں داعش 2014 سے ہی متحرک ہے اور اسے طالبان حکومت کے لیے بڑا سیکیورٹی چیلنج قرار دیا جاتا ہے۔طالبان نے داعش خراسان کے کے خلاف متعدد ا?پریشن بھی کیے ہیں۔اطلاعات کے مطابق ملک کے مشرقی صوبے ننگر ہار میں داعش کے مضبوط ٹھکانے موجود ہیں۔جمعہ کو ہونے والے دھماکے کی متعدد افراد نے بھرپور مذمت کی جن میں اقوام متحدہ کے افغانستان میں مشیر رمیض الاک بروو بھی شامل ہیں جو دھماکے کے وقت گراو¿نڈ میں موجود تھے۔ تاہم وہ محفوظ رہے۔رمیض کو افغان کرکٹ ایسوسی ایشن سے خطاب بھی کرنا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *