پشاور:(اے یو ایس)پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں فائرنگ کے واقعے میں ایک مسیحی پادری ہلاک جب کہ ایک اور شخص زخمی ہوئے ہیں۔پشاور پولیس کی جانب سے فراہم کی جانے والی ابتدائی تفصیلات کے مطابق پشاور کے تھانہ گلبہار کی حدود میں رنگ روڈ پر مدینہ مارکیٹ کے نزدیک نامعلوم افراد کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔فائرنگ کے اس واقعے میں ولیم سراج گولی لگنے سے ہلاک ہو گئے جس کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی ہے۔پشاور پولیس کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ ویلیم سراج علاقہ تھانہ چمکنی کی حدود میں واقع چرچ میں اسسٹنٹ پادری تھے۔
پشاور کے بشپ ہیمفری بشپ سرفراز نے بی بی سی کو بتایا کہ دونوں پادری پھندو کے علاقے میں قائم ایک چرچ میں عبادت کے بعد موٹر سائکل پر جا رہے تھے کہ گلبہار کے علاقے میں ان پر فائرنگ کی گئی۔اس واقعے کے بعد پادری ویلیم سراج کو فوری طور پر پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال لے جایا گیا۔پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال انتظامیہ کے مطابق پادری ولیم سراج ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم کے مطابق دوسرے پادری معمولی زخمی تھے جن کو مرہم پٹی کے بعد ڈسچارج کر دیا گیا ۔وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو ہدایت کی ہے کہ ملزمان کی فوری گرفتاری کے لیے ضروری کاروائی عمل میں لائی جائے۔دوسری جانب پشاور پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری نے موقع پر پہنچ کر آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کر دیا اور تمام داخلی و خارجی راستوں پر مشکوک افراد کی بھی کڑی نگرانی شروع کر دی گئی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیشی ٹیم نے جائے وقوعہ سے اہم شواہد اکٹھے کر لئے ہیں جبکہ نزدیکی مارکیٹ میں سی سی ٹی وی کیمروں کو چیک کیا جا رہا ہے۔حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کا مستقبل کیا ہے۔ ٹی ٹی پی، دولت اسلامیہ کی بڑھتی کارروائیاں: ’ہو سکتا ہے سرحدپار سے لوگ پاکستان داخل ہوئے ہوں‘واضح رہے کہ رواں برس کا آغاز ہوتے ہی پاکستان کے بڑے شہروں کو دہشتگردی کی ایک لہر کا سامنا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں ایسے واقعات میں پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ لاہور کے مصروف انارکلی بازار میں ایک بم دھماکے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے چند دن قبل وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے تصدیق کی کہ ملک کے مختلف حصوں، خصوصاً بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے سرحدی علاقوں میں دہشت گرد تنظیموں کے سلیپرز سیلز ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں اور ان سے نمٹنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور کارروائیاں جاری ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف دو دہائیوں پر محیط ایک طویل جنگ کے بعد اب پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف لڑنے اور معلومات اکٹھی کرنے کا نظام کافی بہتر ہے لیکن آئندہ دو ماہ تک ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ہے تاہم دہشت گردی کی اس تازہ لہر پر قابو پا لیا جائے گا۔
