اسلام آباد:(اے یو ایس)وزیراعظم پاکستان عمران خان جس نے رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے کے لئے شریف اور زرداری خاندانوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ کے خود نشست سے زیادہ وزیر اور مشیر خاص اربوں روپیہ کے اسکینڈلوں میں ملوث ہے۔ ان کے مشیر خاص زلفی بخاری کو راولپنڈی سڑک منصوبے میں بدعنوانیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں استعفیٰ دینا پڑا۔ اس کے علاوہ دو اور وزراءغلام سرور خان اور بختیار اسرو کے خلاف بھی کئی اسکینڈلوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ وزیر دفاع پرویز کھٹک کے بارے میں بھی خیبر پختونخواہ کے اربوں روپیے کے پروجیکٹ میں بدعنوانیوں کا الزام لگایا گیا ہے جبکہ عمران خان کے خاصم خاص جہانگیر ترین کے خلاف حال ہی میںچینی اسکینڈل میں کیس بھی درج کیاگیا ۔
وزیراعظم نے یہ اعلان کیاتھا کہ وہ ملک میں رشوت ستانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیںگے لیکن ان کا یہ دعویٰ کھوکھلا ہی ثابت ہوگیا۔ ایک طرف وہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماﺅں کے خلاف کارروائی کررہی ہے اور ان میں سے کئی جیلوں میںپڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اپنی وزراءاور پارٹی رہنماﺅں کے خلاف کارروائی کرنے سے پرہیز کررہے ہیں۔ جہانگیر ترین جو تحریک انصاف پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی رہے ہیںان کے لئے درد سر بن گیا ہے۔ کیونکہ اس کے حامیوں نے پارٹی کے خلاف بغاوت کا الم اٹھایا ہے اور اگر انہوں نے حکومت کے خلاف پارلیمنٹ یا پنجاب کے صوبائی اسمبلی میں ووٹ دیا تو حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ اسی وجہ سے جہانگیر ترین کے خلاف بھی کارروائی کرنے میں پرہیز کریں۔وزیر اعظم ہر دن مسلم لیگ کے رہنماﺅں اور پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف ملک کو تباہ کرنے کا الزام لگارہے ہیں اور انہیں اربوں ڈالرملک سے باہر بھیجنے کی پاداش میں مقدمات درج کئے گئے۔لیکن جب ان کے اپنی پارٹی کے رہنماﺅں کی بات آرہی ہے تو حکومت کو بچانے کی خاطر کوئی کارروائی کرنے سے گریز کررہے ہیں۔ابھی بھی مسلم لیگ کے خواجہ آصف،لطیف کھوسہ اور دوسرے رہنماءجیل کی کالی کوٹھر ی میں پڑے ہیں۔ یہی حال پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ کا ہے۔ جبکہ حکمراں جماعت کا کوئی بھی رہنما جیل میں نہیںہے۔
حال ہی میں حزب اختلاف کے رہنما شہباز شریف کو عدالت سے راحت ملی۔یہاں تک کہ عدالت نے انہیں ملک سے باہر جانے کی بھی اجازت دے دی لیکن جب وہ لندن جارہے تھے تو ان کوایئر پورٹ پر ہی روکا گیا۔ اس کے برعکس جہانگیر ترین کا نام جب شوگر اسکینڈل میں کیس سامنے آیا تو وہ کئی مہینوں تک ملک سے باہر رہے۔ حالانکہ بعد میں وہ وطن واپس آئے۔ چینی کے علاوہ آٹا،ادویات اور دوسرے کئی اہم پروجیکٹوں میں ان کے پارٹی کے رہنماﺅں کے نام سامنے آئے ہیں،جنہوں نے غیر قانونی طور پر کروڑوںروپے کمائے۔ ان کے ایک اور مشیر داﺅد جو خود ایک صنعت کار ہیں کانام بھی سامنے آیا ہے۔ کیونکہ ان کی ایک کمپنی نے ایک بڑا پروجیکٹ حاصل کیا جو کہ جمہوری اقدار کے خلاف ہے۔
عمران خان بدعنوانی کو ختم کرنے میں ناکام رہے اور کسی کے خلاف کارروائی کرنے میں بھی قاصر رہے۔ پچھلے تین سالوں سے وہ برابر اپوزیشن جماعتوں کو بدعنوانیوں کے معاملے میںسزا دلانے کی کوشش میں رہے۔لیکن ان میں سے کسی کو ابھی تک کوئی سزا نہیں ملی ہے۔ یہاں تک کہ سابق صدر آصف زرداری ان کی بہن فریال تالکوٹ،شہباز شریف، ایس ایم اقبال،شاہد خاقان عباسی اور دوسرے رہنماﺅں کو عدالت سے راحت ملی ہے۔