Hayat Mirza’s cold-blooded murder by the Pakistani Military calls for urgent international intervention in Balochistanتصویر سوشل میڈیا

لندن : بلوچستان کے شہر تربت میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں ایک 25سالہ طالب علم حیات مرزا کے وحشیانہ قتل پر انسانی حقوق کونسل (بی ایچ آر سی) نے نہایت غم و غصہ اور شدید رنج و ملال کا اظہار کیا۔ 13اگست 2020کو تربت کے آپسر علاقہ میں بلوچ باغیوں نے فرنٹیر کور (ایف سی) کے فوجیوں پر حملہ کر دیا تھا،۔ اور جب جوابی کارروائی کرتے ہوئے ایف سی کے فوجی حملہ آوروں کا سراغ نہ لگا سکے تو انہوں نے ایک قریبی نخلستان سے جہاں کھجوروں کے درخت تھے، اپنے والدین کی باغبانی میں مدد کرنے جانے والے حیات مرزا کو دبوچ لیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق ایف سی اہلکاروں نے سڑک کنارے واقع باغ سے حیات مرزا کو زبردستی کھینچتے ہوئے لے گئے۔اسے زمین پر اوندھے منھ لٹا دیا گیا پھر اس کی چیختی چلاتی ماں کا دوپٹہ کھینچا اور اس کی آنکھوں پر باندھ دیا اور پھر اس کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے۔حیات کو اپنی بے گناہی کی وضاحت کرنے کا موقع دیا گیا اور نہ ہی اسے یہ حق دیا گیا کہ وہ معلوم کر سکے کہ آخر اس کے ساتھ ایسا سلوک کس جرم یا غلطی کی وجہ سے کیا جارہا ہے۔ اس کا قصور کیا ہے؟ اور جب اس نے پوچھنا چاہا اور مزاحمت کی کوشش کی تو اسے بری طرح زدو کوب کیا گیا اور پھر بڑی بے رحمی سے اس کے روقتے بلکتے اور رحم کی بھیک مانگتے والدین کے سامنے ہی اس کے جسم میں کئی گولیاں اتار کر اسے جان سے مار ڈالا گیا۔

حیات کے والدین کو ان کے بیٹے کو ان کی نظروں کے سامنے دم توڑتے دیکھنے پر مجبور کیا گیا۔بی ایچ آر سی نے کہا کہ ہم حیات کے ماؤرائے عدالت قتل کو بلوچستان میں پاکستان کی آبادیاتی حکمرانی کا جو بلوچ عوام کے خلاف پالیسیاں وضع کرنے کے لیے اپنی فوج کو متواتر اکساتی رہتی ہے، نتیجہ سمجھتے ہیں۔ فوج کی پالیسیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بلوچ سماج کے سربرآوردہ لوگوں کو صفحہ ہستی سے مٹانا ، جو ملک کی عدلیہ اور متعلقہ بین الاقوامی حقوق انسانی تنظیموں کی بے عملی اور خاموشی سے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔بلوچستان شدید قسم کے انسانیت کے بحران سے گذر رہا ہے اور گذشتہ دو عشروں سے بلوچ عوام ظلم و ستم سہہ رہے ہیں اور اس کی نوجوان نسل کا ایک بڑا حصہ جبراً گمشدگی اور امؤرائے عدالت قتل کا شکار ہو چکا ہے ۔

ہزاروں نوجوان حالیہ برسوں میں اپنی جان بچانے کے لیے مختلف ممالک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ملک کی عدلیہ فوج کے سخت کنٹرول میں ہے جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت فوج کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے اور اس عوحشیانہ کارروائیوں کے خلاف خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان میں قانون ساز اداروں کے اراکین بھی اتنے بے یار و مددگار ہیں کہ وہ بلوچستان میں حقوق انسانی کی پامالی اور اس قسم کے وحشیانہ واقعات کی مذمت میں سوائے زبانی جمع خرچ کے، جن کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا، ایک لفظ نہیں بول سکتے ۔ نہ ان کے لیے کچھ کر سکتے ہیں اور نہ ہی قانونی اصلاحات لا سکتے ہیں۔ بلوچستان میں رہنا بتدریج خطرناک ہوتا جا رہا ہے ۔

اقوام متحدہ بشمول بین الاقوامی برادری کو سنجیدگی سے اس معاملہ کو دیکھنا چاہئے اور پاکستانی فوج کے ہاتھوں بوچ معاشرے کے سربرآوردہ لوگوں کی ہلاکتوں اور جبری گمشدگی کو روکنے کے لیے مداخلت کرنی چاہئے۔حقوق انسانی کے علمبردار ممالک کو آگے بڑھنا چاہئے اور اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل میں ایک قرار داد لانی چاہئے نیز حقوق انسانی کی واسیع پیمانے پر پامالی کی تحقیقات کرانے کے لیے حقائق کا پتہ لگانے والا ایک کمیشن اسی طرح بلوچستان بھیجنا چاہئے جس طرح وینیزویلا میں بھیجا گیا تھا اور نتیجہ میں بلوچستان میں انسانیت کے خلاف جرائم کے لیے فوجی افسران کو جوابدہ بنایا جائے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *