اسلام آباد:( اے یوایس) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو سال قبل لاپتہ ہونے والے آئی ٹی کے ماہر ساجد محمود کی بازیابی سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جبری گمشدگی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کے کچھ لوگ ہی لوگوں کو زبردستی غائب کرتے ہیں۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت یہ نہیں پوچھ رہی کہ شہری کو ’لائیو سٹاک ڈپارٹمنٹ‘ اٹھا کر لے گیا یا کوئی اور۔ ا±نھوں نے کہا کہ اس معاملے میں ریاست یہ تو تسلیم کر چکی ہے کہ یہ جبری گمشدگی کا کیس ہے۔ا±نھوں نے کہا کہ انسان کی لاش مل جائے تو تسلی ہو جاتی ہے جبکہ جبری گمشدگی جس کے ساتھ ہوتی ہے وہی جانتا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ’جس کا پیارا غائب ہو جائے اور اس پر ریاست یہ کہے ہم میں سے کسی نے اٹھایا ہے تو شرمندگی ہوتی ہے۔‘ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ ان کا اس کیس میں کسی تاخیر سے کوئی تعلق نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ’آپ بحث کریں گے تو ہم وزیراعظم کو نوٹس کر دیتے ہیں‘۔بینچ کے سربراہ نے ایڈشنل اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ان چیزوں کو کھولیں گے تو شرمندگی ہوگی۔ ا±نھوں نے کہا کہ یہ عدالت بڑی احتیاط سے ان معاملات کو ڈیل کرتی ہے اور ہر کسی پر الزام نہیں لگاتی۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’ریاست نے مذکورہ شخص کے بازیاب نہ ہونے پر اپنی ناکامی مانی ہے تو پھر ریاست کو جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے اہلخانہ کو ان کی بازیابی تک ماہانہ خرچہ دینا ہو گا۔‘
واضح رہے کہ آئی ٹی کے ماہر ساجد محمود کے لاپتہ ہونے پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سنہ 2018 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت ساجد محمود کی بازیابی تک ان کے گھر کے اخراجات اٹھائے۔عدالت نے اس وقت کے سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ ضمیر الحسن، چیف کمشنر ذوالفقار حیدر، آئی جی پولیس خالد خٹک، ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کیپٹن (ر) مشتاق احمد کو ایک ایک لاکھ روپے جبکہ اس وقت کے ایس ایچ او تھانہ شالیمار قیصر نیاز کو تین لاکھ روپے جرمانہ کیا تھا۔دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہو سکا جس پر لاپتہ شخص کے اہلخانہ نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالت فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ان عدالتی احکامات پر عمل درآمد کے لیے عدالت ہر سطح تک جائے گی۔درخواست گزار کے وکیل عمر گیلانی نے کہا کہ ’چار سال سے بچی نے والد ساجد محمود کو نہیں دیکھا اور اس نے اپنے والد سے متعلق کچھ احساسات لکھے ہیں۔
‘انھوں نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ وہ ان احساسات کو پڑھیں جس سے معلوم ہوگا کہ ایک بچی جس کے والد کے بارے میں ابھی تک یہ معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے، کیسے اپنے باپ کے بغیر رہ رہی ہے۔بینچ کے سربراہ نے چار سالہ بچی کے اپنے والد کے بارے میں احساسات کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے کا حکم دیا جبکہ اس کی ایک نقل ایڈشنل اٹارنی جنرل کو بھی دینے کا حکم دیا۔ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری خزانہ کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر لاپتہ شہری کی فیملی کی مالی امداد کے لیے چیک لے کر آئیں۔پاکستان کے چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ’سرکاری اہلکاروں کو لوگوں کو اپنا غلام نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ درحقیقت سرکاری اہلکار لوگوں کے غلام ہیں کیونکہ وہ ان کے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔‘یہ ریمارکس انھوں نے کوئٹہ میں سپریم کورٹ کی رجسٹری میں ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ اور جبری گمشدگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران دیے۔
نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق سماعت کے دوران ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور دیگر افراد کی بڑی تعداد بھی عدالت میں موجود تھی۔ جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے پانچ لاپتہ افراد کے کیسز کی سماعت کی۔سماعت کے دوران پولیس کی جانب سے ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ محمد اکبر مہیسر اور ایس ایس انویسٹی گیشن اکبر رئیسانی عدالت میں پیش ہوئے اور انھوں نے اس سلسلے میں رپورٹ پیش کی۔عدالت نے رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایس پی آپریشنز کو کہا کہ وہ خود اس رپورٹ کو عدالت میں پڑھیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ’پولیس اہلکاروں کو معلوم نہیں ہوتا کہ تحقیق کس طرح ہوتی ہے اور وہ دفتروں میں بیٹھ کر صرف خط جاری کرتے ہیں حالانکہ آج کی دنیا میں صرف خط جاری کرنے سے کام نہیں ہوتا۔‘جسٹس گلزار احمد نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ وہ لاپتہ افراد میں سے کسی کے گھر گئے ہیں تو ان کا جواب نفی میں تھا جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’آپ لوگ صرف افسری کر رہے ہیں اور باقی لوگ آپ کے غلام ہیں اور آپ لوگوں کو کچرا سمجھتے ہیں۔‘چیف جسٹس نے کہا ’لوگوں کو غلام سمجھنا باعث شرم ہے۔
کیا آپ لوگوں کو یہی سکھایا گیا ہے کہ آپ لوگ دفتروں میں بیٹھو اور لوگوں کو غلام بنا۔چیف جسٹس نے کہا: ’جس اہلکار کو تحقیقات کرنی ہوتی ہیں تو اس کو ہر جگہ جانا ہوتا ہے لیکن یہاں لوگوں کو اپنے پاس بلایا جاتا ہے۔‘پولیس کی جانب سے جو رپورٹ پیش کی گئی اس میں لاپتہ افراد کے مقدمات درج نہیں کیے گئے تھے بلکہ یہ بتایا گیا تھا کہ ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے عمائدین آئے تھے اور انھوں نے یہ کہا تھا کہ ان میں سے چار افراد کی گمشدگی کا مقدمہ درج نہیں کرانا ہے۔چیف جسٹس نے ایس ایس پی آپریشنز کوئٹہ سے استفسار کیا کہ ’کیا لوگوں کو لاپتہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم نہیں۔ جس پرایس ایس پی آپریشنز نے کہا کہ یہ قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔‘چیف جسٹس نے کہا کہ ’جب لوگوں کو لاپتہ کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے تو پھر پولیس اہلکار خود لاپتہ افراد کے مقدمات درج کیوں نہیں کرتے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ لوگوں کی کارکردگی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں پولیس کے محکمے کو فارغ کردینا چاہیے۔‘عدالت نے پولیس کو حکم دیا کہ ان تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے دوہفتے میں رپورٹ اسلام آباد میں پیش کی جائے۔گذشتہ شب بلوچستان بار کونسل کی جانب سے دیے گئے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’لاپتہ افراد کا مسئلہ تشویشناک ہے اور یہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے ہماری ہائی کورٹس نے بہت کام کیے ہیں اوراس حوالے سے کمیشن بھی قائم ہوا ہے۔ ’عدالتی کاوشوں سے کافی لاپتہ افراد بازیاب ہوئے ہیں اور وہ اپنے گھروں میں پہنچ گئے ہیں۔انھوں نے واضح کیا کہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر عدالت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی اور عدالت کسی طرح لوگوں کے حقوق کو غصب نہیں ہونے دے گی۔ ’لوگوں کو لاپتہ نہیں ہونے دیا جائے گا اور اگرہوئے تو عدالت اپنا کردار ادا کرے گی۔
