Heartbreaking story : A three year old Kashmiri child sitting on the body of his dead grandpaتصویر سوشل میڈیا

سہیل انجم

جموں و کشمیر میں ضلع بارہمولہ کے سوپور میں گزشتہ دنوں ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جس نے دنیائے انسانیت کو اندر تک ہلا کر رکھ دیا۔ کشمیر میں سیکورٹی فورسز اور انتہا پسندوں کی کارروائیوں میں سیکورٹی فورسز کے جوانوں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کی بھی ہلاکتیں ہوتی ہیں۔ کبھی انتہا پسندوں پر الزامات عاید ہوتے ہیں تو کبھی سیکورٹی فورسز پر۔ یہ الگ بات ہے کہ الزامات کی تردید بھی کی جاتی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کے لوگ خاک و خون کو دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ ہر دوسرے تیسرے دن کسی نہ کسی کی لاش دیکھتے ہیں۔ کبھی کسی کی ہلاکت پر احتجاج بھی ہوتا ہے۔ لیکن پھر سب کچھ بدستور چلتا رہتا ہے۔ گزشتہ سال پانچ اگست کو حکومت ہند کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد وہاں سیکورٹی فورسز کی کارروائیاں کافی بڑھ گئی ہیں اور ان کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ دہشت گردی پر بہت حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ اس دوران کافی دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

لیکن مضمون کی ابتدا میں جس حادثے کا ذکر کیا گیا ہے ویسا حادثہ شاید ہی کبھی واقع ہوا ہوگا۔ نہ صرف جموں و کشمیر میں بلکہ ملک کے دیگر کسی علاقے میں بھی ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا ہوگا۔ اگر ہم جنگ زدہ ملکوں کی بات کریں تو ممکن ہے کہ وہاں ایسا یا اس سے مماثلت رکھنے والا واقعہ پیش آیا ہو۔ لیکن کم از کم کشمیر میں تو نہیں پیش آیا ہوگا۔ گزشتہ دنوں سیکورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان مڈ بھیڑ چل رہی تھی۔ اسی دوران ایک معمر شخص بشیر احمد خان اپنے تین سالہ نواسے عیاد جہاں گیر کو لے کر اپنی گاڑی سے کچھ لینے نکلے تھے کہ گولیوں کا شکار ہو گئے۔ سیکورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ بشیر مڈبھیڑ میں پھنس گئے اور مارے گئے۔ یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں جو پہلے کشمیر میں نہ ہوا ہو۔ در اصل اس کہانی کا اگلا حصہ ایسا ہے جو اپنے آپ میں نہ صرف انوکھا ہے بلکہ تکلیف دہ اور دلدوز بھی ہے۔ جب بشیر احمد خان کی گولی لگنے سے موت ہو گئی تو ان کے تین سالہ نواسے کو ان کی لاش کے سینے پر بیٹھا ہوا دیکھا گیا جو شاید اپنے نانا کو جگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس تصویر نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ہے اور اس پر الگ الگ انداز میں تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

اس تصویر کو دیکھ کر شام کے معصوم ایلن کردی کی یاد آگئی جس کی لاش بہہ کر سمندر کے کنارے آلگی تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر میانمار کے بعض بچوں کی بھی یاد آگئی جو دنیا کے ظلم و جور کے شکار ہوئے ہیں۔ لیکن ایسا کسی نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کوئی معصوم بچہ اپنے کسی بزرگ کی لاش کے اوپر بیٹھا ہوا ہے۔ ہاں گزشتہ دنوں جب لاک ڈاون کی وجہ سے لاکھوں مزدور شہروں سے اپنے گھروں کی جانب رواں دواں تھے تو بہار میں ایک خاتون کی موت ہو گئی۔ اس کی لاش پلیٹ فارم پر رکھی ہوئی تھی اور ایک چادر سے ڈھک دی گئی تھی۔ اس لاش پر سے اس کا معصوم بچہ چادر ہٹا رہا تھا۔ وہ تصویر بھی خوب وائرل ہوئی تھی۔ وہ بچہ چادر ہٹانے کے بعد اسی چادر سے کھیلنے بھی لگا تھا۔ لیکن جس طرح اسے اس کا احساس نہیں تھا کہ اس کی ماں اب اس دنیا میں نہیں ہے اسی طرح عیاد کو بھی شاید اس کا احساس نہیں رہا ہوگا کہ اس کے نانا اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ اگر اسے احساس ہوتا تو وہ ان کے سینے پر بالکل نہیں بیٹھتا۔ اس سلسلے میں دو ویڈیوز وائرل ہیں۔ ایک میں سیکورٹی فورسز کے جوان ا س بچے کو بچاتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور اسے گاڑی میں لے جایا جا رہا ہے۔ وہ رو رہا ہے اور اسے چپ کرایا جا رہا ہے۔ جبکہ دوسری ویڈیو میں بشیر احمد کے گھر والے سیکورٹی فورسز پر انھیں مارنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

اس دلدوز سانحہ پر جموں و کشمیر کے اخبارات چیخ پڑے اور انھیں آواز بلند کرنی ہی تھی۔ نگریزی اخبار گریٹر کشمیر نے صفحہ اول پر جہاں خبر شائع کی ہے وہیں فائرنگ سے ہلاک ہونے والے بشیر احمد خان کے جنازے کی تصویر بھی لگائی ہے۔ جنازے میں بڑی تعداد میں شہری شریک نظر آ رہے ہیں۔ گریٹر کشمیر کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کا واقعہ شمالی کشمیر کے علاقے سوپور میں پیش آیا۔ اس واقعے میں جہاں ایک سیکورٹی اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوئے وہیں ایک عام شہری بشیر احمد خان بھی فائرنگ سے مارے گئے۔ ان کے ہمراہ ان کا تین سالہ نواسہ بھی تھا تاہم وہ فائرنگ میں محفوظ رہا۔سینٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) کے ترجمان کے مطابق فائرنگ کا واقعہ صبح سویرے اس وقت پیش آیا جب ایک مسجد سے سیکورٹی اہلکاروں کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔ گریٹر کشمیر نے صفحہ اول پر کشمیر پولیس کے انسپکٹر جنرل (آئی جی) کا بیان بھی شائع کیا جس میں ان کا دعویٰ تھا کہ بشیر احمد خان سیکورٹی اہلکاروں کی فائرنگ سے ہلاک نہیں ہوئے۔ اسی طرح ایک اور انگریزی اخبار کشمیر آبزرور نے بھی صفحہ اول پر فائرنگ میں محفوظ رہنے جانے والے بچے کے حوالے سے خبر لگائی کہ اس واقعے سے پہنچنے والا ذہنی صدمہ ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا۔ اخبار نے بچے اور اس کے نانا کی وہ تصویر بھی صفحہ اول پر لگائی جس میں بشیر احمد خان فائرنگ سے ہلاک ہونے کے بعد زمین پر پڑے ہیں جب کہ ان کا تین سالہ نواسہ ان کے سینے پر بیٹھا ہوا ہے۔ کشمیر آبزرور کی رپورٹ کے مطابق فائرنگ کے وقت بشیر احمد خان گاڑی روک کر اپنے نواسے کے ہمراہ محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بشیر احمد خان کے بیٹے نے ایک ویڈیو میں الزام لگایا ہے کہ ان کے والد کو گاڑی روک کر اس سے اتارا گیا اور پھر انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ پولیس حکام نے ان کے بیٹے کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔خیال رہے کہ جب بچے کی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں تو سیکورٹی اہلکاروں کی کچھ اور ویڈیوز اور تصاویر بھی سامنے آئیں جن میں اہلکاروں کی جانب سے بچے کو گود میں اٹھائے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ویڈیو میں بچے کو اس کے اہل خانہ کے پاس لے جاتے ہوئے اہلکار اس سے باتیں کر رہے ہیں۔ اہلکار اسے چاکلیٹ دینے کی بات کر رہے ہیں تاکہ وہ رونا بند کر دے۔پی ڈی پی صدر و سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی صاحبزادی التجا مفتی نے ان تصویرں کے ردعمل میں اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ ”دو طرح کی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں ایک ویڈیو میں دکھایا جارہا کہ تین سالہ بچے کو بچایا جارہا ہے اور دوسری ویڈیو میں دکھایا جارہا ہے کہ مہلوک کا بیٹا سی آر پی ایف پر اس کے باپ کو دن دہاڑے مارنے کا الزام عائد کر رہا ہے۔ کشمیر میں سچائی بڑی شکار بن گئی ہے“۔ عام لوگوں کی جانب سے بھی رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔

بہر حال یہ واقعہ دنیائے انسانیت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ تصویر انسانوں سے سوال کرتی ہے کہ تمھیں کیا ہو گیا ہے کہ تم کشمیر جیسی جنت ارضی کو جہنم بنانے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ تصویر سوال کرتی ہے کہ کب تک انسانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا رہے گا۔ کب انسانوں کو ہوش آئے گا اور وہ اس تباہی و بربادی سے اپنا منہ موڑیں گے۔ کیا دنیا میں پریشانیاں اور دشواریاں کم ہیں جو ان کو اور بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ تصویر لوگوں سے التجا کرتی ہے کہ خدا را اب خاک و خون کے اس کھیل کو بند کر دیجیے اور لوگوں کو امن و سکون کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقع دیجیے۔
sanjumdelhi@gmail.com

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *