Heratis march against Taliban, support Afghan Forcesتصویر سوشل میڈیا

ہرات شہر: طالبان کے خلاف متحد ہونے والے صوبہ ہرات کے مغربی شہر ہرات کے رہائشیوں نے دوشنبہ کی شب نعرہ تکبیر اللہ اکبر بلند کرتے ہوئے صوبہ کے دفاع کے عزم اور افغان سلامتی دستوں سے تعاون کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے ہرات شہر کے جنوبی حصوں میں طالبان کے خلاف جاری لڑائی میں افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سیکورٹی فورسز (اے این ڈی ایس ایف) کی پیشقدمیوں اور کامیابیوں کا جشن بھی منایا۔واضح ہو کہ ہرات میں جنگ8روز سے جاری ہے۔ ہرات شہر کے رہائشیوں کے اس اقدام کا پورے افغانستان میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور تمام افغانوں نے سوشل میڈیا پر ”ہرات بغاوت“ اور” اللہ اکبر “ کے عنوان سے ہراتیوں کی حمایت کا اعلان کردیا۔ کابل کے رہائشیوں نے بھی کابل میں سوشل میڈیا کا سہار الیا اور کابل میںبھی اسی قسم کی کارروائی کرنے کی ترغیب دی۔

اول نائب صدر امراللہ صالح نے بھی اس قدام کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ وہ اسی دن کا انتظار کر رہے تھے اور وہ اس اقدام سے پھولے نہیں سمارہے اور نہایت خوش ہیں۔ہرات کے گورنر جنرل عب الصبور قانی نے ، جنہوں نے ملک کے سلامتی اداروں کی سربراہی کر چکے ہیں، منگل کے روز کہا کہ صوبے میں سلامتی دستوں کو فضائی مدد مل رہی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ صوبہ کو طالبان سے نجات دلانے کے لیے وسیع پیمانے پر فوجی کارروائی شروع کر دی گئی ہے اور ہرات کا مغربی حصہ طالبان سے پاک کر دیا گیا ہے اور سلامتی دستے شہر کے جنوبی حصے میں کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ذرائع کے مطابق جھڑپیں شہر کے جنوب میں جاری ہیں جو شہر کے مرکز سے تقریبا دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔ قانی نے مزید کہا کہ کابل سے کمک پہنچنے کے ساتھ ہی ہرات شہر میں طالبان کی پیش قدمی روک دی گئی ہے اور گروپ کے جنگجوؤں کے خلاف زمینی اور فضائی کارروائیاں جاری ہیں۔

دوشنبہ کو سابق مجاہدین لیڈر اور جماعت اسلامی کے سینیئر رکن محمد اسماعیل خان نے، جو طالبان کے خلاف جنگ میں عوامی بغاوت دستوں کی قیادت کر رہے ہیں،ہراتوں سے کہا کہ وہ طالبان کے خلاف اکٹھا ہو جائیں اور انہیں جتا دیںکہ شہر کا دفاع کیا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ ہر عورت اور ہرات کی عوام کا فرض ہے کہ وہ خود کو جہالت کی اس فوج سے بچائیں۔ طالبان ماضی کی نسبت زیادہ جاہل اور مغرور ہیں ، اور اگر وہ اس جہالت کے ساتھ ہرات شہر میں داخل ہوئے تو وہ لوگوں کو اس طرح اذیت پہنچائیں گے کہ سب کو افسوس ہوگاکہ ہم طالبان کے خلاف کیوں نہیں اٹھے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *