Here's how Khalistan has become money making cottage industry in UKعلامتی تصویر سوشل میڈیا

منیش شکلا (زی نیوز)

اکیسویں صدی کے اوائل میں پنجاب میں پل کر جوان ہونے والے شخص کے لیے یو کے کے کٹر خالصتانی گوردواروں کی زیارت نہ صرف چونکانے والی ہو گی بلکہ پریشان کن بھی ہوگی۔ خالصتانی تنظیمیں نہ صرف پورے یوکے میں پھیلی ہوئی ہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے جن کا کوئی دوسرا ذریعہ معاش نہیں ہے بڑا منفعت بخش کاروبار بن گئی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر تنظیموں نے روشنی میں رہنے کے لیے فیڈریشن آف سکھ آرگنائزیشنز (ایف ایس او) سکھ کونسل یو کے (ایس سی یو کے ) یا ورلڈ سکھ پارلیمنٹ (ڈبلیو ایس پی) جیسے کئی تنظیموں کی فیڈریشنوں کی شکل اپنے کاروبار چلا رکھے ہیں۔

اگرچہ ان تنظیموں کو یو کے میں آباد زیادہ تر سکھوں کی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن پھر بھی یہ تنظیمیں یو کے میں واقع گوردواروں کا نظم و نسق سنبھالنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں لگی رہتی ہیں۔

سیکورٹی ادارے میں کام کرنے والے ایک افسر نے بتایا کہ ”لیکن اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ وہ گوردوارے کی انتظامیہ پر کنٹرول پانے کے لیے ایک دوسرے سے گتھم گتھا بھی ہو جاتے ہیں۔انتظامیہ پر کنٹرول کرنے سے سیوا اور خیراتی کام کے نام پر چندہ بٹورنا ،اسٹیج سے ان کے پروپیگنڈے کو لیے سامعین کو جمع کرنا،مختلف سنگتوں اور پروگراموں کے لیے تیار شدہ مقامات کی فراہمی اور ان کے غیر متعلق کاموں کو چلانے کےلیے خیراتی تنظیم کا لبادہ اوڑھنا جیسے کئی مقاصد پورے ہوجاتے ہیں۔

یو کے میں بنیاد پرست سکھ گروپس خالصتان تحریک کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہندوستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے میں لگے ہیں۔ان تمام گوردواروں پر جرنیل سنگھ بھنڈراں والے کے پوسٹرز آویزاں دیکھے جا سکتے ہیں۔جس میں انہیں سکھ ریاست کے لیے جام شہادت نوش کرنے والی شخصیت بتایا گیا ہے۔یو کے میں رام گھریا ، روی داسیہ اور انٹرنیشنل بھٹ سوسائٹی جیسے کئی ایسے گوردوارے ہیں جو معتدل نظریات کے حامی ہیں۔لیکن ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز بن کر رہ جاتی ہے کیونکہ زبردست سرگرم مٹھی بھر خالصتان حامی گوردواروں کی گونج میں ان کی آواز دب جاتی ہے۔

جیسے ہی ان تنظیموں کا استحکام حاصل ہو جاتا ہے یہ خالصتان کاز کے لیے ایک بڑا پلیٹ فارم تشکل دینے کے لیے میڈیا ،یونیورسٹی یونینوں اور سیاست میں مختلف شکل سے سرایت کر جاتی ہیں ۔ اور ان چند افراد اور گوردواروں کی بقا اور خود اپنے ذاتی مفاد ات کے لیے خالصتان کو زندہ رکھنا لازمی ہے۔مڈلینڈ لنگر سیوا، سکھ 2 انسپائر اور برٹش آرگنائزیشن آف سکھ اسٹوڈنٹس ایسی چند تنظیمیں ہیں جو ان رجحانات کو آگے بڑھا رہی ہیں اور سکھ اقدار کے اپنے نظریہ کی جانب نوجوانوں کو متاثر کرنے میں سرگرم ہیں۔

حال ہی میں ویسٹ منشیات کے ایک سابق اسمگلر دیپا سنگھ اور اس کی بہن کے خلاف عطیہ کیے گئے خیراتی فنڈ کے مبینہ فراڈ کے لیے مڈ لینڈ پولس کے انسداد دہشت گردی یونٹ نے فرد جرم عائد کی تھی۔دیپا سنگھ عرف کال دیپ سنگھ لیہال سکھ ہوتھ یو کے (ایس وائی یو کے)کا لیڈر ہے۔نومبر2018میں ایس وائی یو کے اور سکھ چینل نے سکھ میڈیشن اینڈ ریسرچ سینٹر (ایس ایم اے آر ٹی) تشکیل دینے کے لیے 0.35ملین برطانوی پونڈ چندہ جمع کیا۔ اس بات کی تحقیقات ضروری ہیں کہ اس رقم کا کس طرح استعمال کیا گیا۔
جنوری2020میں خیراتی کمیشن نے سکھ چینل کے مالی انتظام کی جانچ شروع کی اور 19مارچ کو انتھونی کولنس سولیسیٹرز کے فلپ واٹس اور سارہ ٹوم لیسن اس خیراتی ادارے کے عبوری منتظم مقرر کیے گئے۔چیریٹی کمیشن یو کے کے مطابق ان خیراتی اداروںکو جہاں کمیشن بدعنوانی اور بد انتظامی کا مرتکب پاتا ہے وہاں وہ دو عبوری منتظمین کا تقرر کر دیتا ہے جو ان اداروں کو چلاتے ہیں۔

ایک اور سکھ چینل کے ٹی وی گلوبل یو کے میں خالصتانی کاز کو فروغ د یتے دیکھا گیا ۔اس چینل کا ریکارڈ چھانا گیا تو پتہ چلا کہ 2018سے کمپنی نے اپنا مالی گوشوارہ داخل نہیں کیا تھا اس لیے اس 31مارچ کو گزٹ نوٹس کے ذریعہ اسے تحلیل کیا جا چکا ہے۔اس کے واحد ڈائریکٹر جسبیر منڈیر ایک غیر فعال کمپنی خالصہ ٹیلی ویژن لمیٹڈ کے سرگرم ڈائریکٹر ہیں، لیکن بیوی امریک سنگھ گل ، جو سکھ فیڈریشن یو کے کی چیرمین ہیں، اس کے ڈائریکٹروں میں سے ایک ہیں۔

امریکی سنگھ گل اور ایس ایف یو کے سکھوں کی ایک علیحدہ نسلی گروپ کے طور پر شناخت کے لیے قانونی لڑائی کی قیادت کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے اگر وہ یو کے کی یورپی نسل کے گوروں کی اکثریت سے ایک علیحدہ نسلی گروپ چاہتے ہیں تو بات سمجھ میں آسکتی ہے۔لیکن تنظیم کے یہ دعوے کہ سکھوں کی ہندوستانیوں بشمول پنجابی ہندوؤں سے مختلف نسل ہے ناقابل فہم ہے۔ایس ایف یو کے کے ترجمان دیوندر جیت سنگھ نے ایک میڈیا انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ قانونی چارہ جوئی پر کم و بیش 0.1ملن برطانوی پونڈ کا خرچ آئے گا اور ایک گوردوارے نے یہ سارا خرچ برداشت کرنے کی حامی بھر لی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خیراتی تنظیموں کے نام سے گوردواروں کے ذریعہ جمع کی گئی رقم کیا اس قسم کی قانونی لڑائیوں کے لیے استعمال کی جاسکتی ہے۔امریکی سنگھ گل اور دیوندر جیت سنگھ انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن (آئی ایس وائی ایف)کے، جو 2016تک یو کے میں کالعدم تنظیم تھی، اراکین ہیں۔

نیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن (این ایس وائی ایف) اور اس کے لیڈر شمشیر سنگھ یو کے میں گندی خالصتان سیاست میں داخل ہونے نئے مہمان ہیں ۔این ایس وائی ایف کی ویب سائٹ کھلم کھلا یو کے دہشت گرد فہرست میں ایک اور کالعدم قرار دی گئی تنظیم ببر خالصہ انٹرنیشنل ( بی کے آئی) کی حمایت کرتی ہے۔یہ تنظیم اپنی رکنیت کے عوض ماہانہ 10,30 50برطانوی پونڈ یا یکمشت ادائیگی کی شکل میں فیس لیتی ہےدلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تنظیم آہستہ آہستہ یو کے کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہے۔آسٹن یونیورسٹی کی خالصتان سوسائٹی خالصتان معاملہ اور اس کئی قانونی حیثیت کی تشہیر کے لیے شمشیر سنگھ جیسے دیگر الوگوں کا کھلم کھلا مدعو کرتی ہے۔

حال ہی میں این ایس وائی ایف نے تمل طلبا کے ایک گروپ سے رابطہ کیا تھا اور انہیں خالصتان کے مطالبہ کی اطلاع دی تھی اوران سے کہا تھا کہ سکھ علیحدگی کے لیے تمل مطالبہ کی حمایت کرتے ہیں۔ایک تمل طالبعلم نے مذاقاً کہا”شاید وہ ہمیں سری لنکائی تمل سمجھ رہے ہیں“۔

عالمی سکھ پارلیمنٹ کے ہم وطن ایک اور تنظیم سکھ فار جسٹس ہے جو یو کے میں حال ہی میں ظہور میں آیا ہے اور اس نے راشٹریہ سکھ سنگت (آر ایس ایس) کے سربراہ روڈلا سنگھ کے قتل کیس میں مطلوب اور 2016میں پرتگال سے اس کی حوالگی میں ہندوستان کی ناکامی کے بعد رہا ہو جانے والے پرم جیت سنگھ پما جیسے انتہاپسندوں کو ایک پلیٹ فارم بہم پہنچایا ہے۔ یہ تنظیم سکھ ریاست کے لیے ”سکھ استصواب رائے2020“ کے لیے رجسٹریشن کرانے میں سرگرمی دکھا رہی ہے۔لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ سکھ ریاست میں پاکستان اور ہندوستان کے کون کون سے علاقے مانگے جا رہے ہیں۔

ایک تجزیہ کار نے کہا”چونکہ ان کی ناراضگی صرف اور صرف خالصتان کی دیگر تنظیموں کی طرح صرف پنجاب کے ہندوستانی حصہ کے ہی خلاف ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ اگر وہ ہندوستانی ریاست پنجاب کو سکھ ہوم لینڈ کی حیثیت سے آزاد کروانے کی کوشش کر رہے ہیں تو کیا اس وقت یہ ایک مذہبی ملک ہوگا ؟ اس خطے میں بسنے والے دیگر مذاہب کے لوگوں کا کیا ہوگاکے بارے میں ، کیا ان کا صفایہ کر دیا جائے گا ، یا اس طرح کے ریفرنڈم میں ان کی بھی رائے شامل کی جائے گی؟ حتیٰ کہ اگر ایسا ہوا بھی تو زمین سے گھرا ایک آزاد ملک جس کا ہوائی اور خشکی سے آمدو رفت و نقل و حمل اور کسٹمز کے حوالے سے تمامم معاملات پر ہندوستان پر انحصار ہے قائم و دائم رہے گا ۔ ایسا لگتا ہے کہ ایس ایف جے یہ فراموش کر بیٹھا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کا دارالحکومت لاہور تھا جو اب پاکستان میں ہے ،اور کشمیر تک پھیل چکا ہے۔“

ایسی تنظیموں کا پھیلاؤ اور سوشل میڈیا ، گوردواروں اور یونیورسٹی کیمپسوں میں ان کی سرگرم موجودگی باعث تشویش ہے۔ پنجاب کے متعدد ہندوستانی طلبا میں،جن کا تعلق پنجاب سے ہے اور جو برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں ، اظہار آزادی وسیاسی عقیدے کی آڑ میں اس قسم کے علیحدگی پسند خیالات پیدا کیے جارہے ہیں۔ اور جب وہ گوردواروں میں جاتے ہیں تو ان خیالات کو اور پختہ کر دیا جاتا ہے۔
”کھڑکو“ اور ”شیر“ (جو بی کے آئی سے متعلق ہہو سکتے ہیں) جیسے الفاظ ” برطانیہ میں سکھ نوجوانوں میں ایک فیشن بن گئے ہیں جو اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ کٹر پن ہونے کی نشانی ہے۔ ان تنظیموں نے جو رقم جمع کی ہے اس سے ان تنظیموں کو خالصتان کا ز کو تقویت پہنچانے اور اس کی تشہیر کرنے والی ٹی شرٹس ، سویٹ شرٹس ، کیپس ،ہیٹس اورکتابیں فروخت کرنے اور چانی ناتن جیسے گلوکاروں کی میوزک ویڈیو تیار کرنے میں مدد ملتی ہے ۔آیا اس طرح سے جمع کی گئی رقم کا کوئی حصہ حقیقی مستحقین تک پہنچا بھی ہے یا نہیں قابل بحث ہے لیکن ایک بات یقینی اور درست ہے کہ اس نے ان تنظیموں کو چلانے والے افراد کی تجوریاں ضرور بھر دیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *