واشنگٹن: امریکی سفری برائے بین الاقوامی مذہبی امور سیموئل براؤن بیک نے کہا ہے کہ پاکستان ہندو اور عیسائی خواتین کو داشتاؤں اور جبری دولہنوں کے طور پر چین کو برآمد کر رہاہے۔
انہوں نے کہا کہ جبری طور پر اقلیتی دولہنیں چین بھیجنے کے معاملہ پر آج صبح ہم نے واقعتاً ایک سخت ویبنار منعقد کیا ۔ جس میں پاکستان کی مذہبی اقلیتی،مسیحی اور ہندو خواتین کو موثر حمایت یا مدد حاصل نہ ہونے کے باعث داشتاؤں یا جبری دولہنوں کے طور پر چین کو فروخت کیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف تفریق آمیز سلوک کیا جا رہا ہے جس سے وہ اور کمزور اور بے دست و پا ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی قانون کے تحت نہایت باعث تشویش ملک نامزد کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے۔چونکہ چین میں برسہا برس سے ایک بچہ پالیسی نافذ ہے اس لیے وہاں لڑکے کی پیدائش کو ترجیح دینے کے باعث عورتوں کی قلت ہو گئی جس سے مجبور ہو کر چینی مردوں نے دیگر ممالک سے دولہنوں، گھریلو خادماؤں اور مزدوروں کے طور پر خواتین کی درآمد شروع کر دی۔
باؤن بیک نے یہ بات اس وقت کہی جب ان سے معلوم کیا گیا کہ مائک پوم پیو نے پاکستان کو خاص تشویش والے ملک کے طورپر کیوں نامزد کیا اور ہندوستان کو کیوں چھوڑ دیا۔امریکی سفارت کار نے کہا کہ دنیا بھر میں توہین مذہب اور ارتداد کے جرم میں جتنے لوگ قید ہیں اس کی نصف تعداد تنہا پاکستان کی جیلوں میں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کی خلاف ورزی حکومت کرتی ہے۔ جبکہ ہندوستان میں زیادہ تر فرقہ ورانہ فسادات ہوتے ہیں۔اور جب وہ فسادات ہوتے ہیں تو ہم یہ طے کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا ان فسادات کی روک تھام کرنے اور حالات قابو میں کرنے کے لیے پولس موجود تھی یا نہیں اور فرقہ وارانہ فسادات کے بعد عدالتی کارروائی ہوئی یا نہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دوشنبہ کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پوم پیو نے مذہبی آزادی کی منظم انداز میں جاری انتہائی درجہ خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے کے باعث بین الاقوامی مذہبی آزادی قانون مجریہ1998کے تحت برما، چین، اریٹیریا،ایران، ناےئجیریا، شمالی کوریا، پاکستان، سعودی عرب، تاجکستان اور ترکمانستان کو خاص تشویش والے ممالک کے طور پر نامزد کیا تھا۔