ہانگ کانگ: ہانگ کانگ پولس نے بدھ کے روز چین کے نئے قومی سلامتی قانون کے تحت اس وقت گرفتار یاں کیں جب شہر کو چین کے حوالے کرنے کی سالگرہ کے موقع پر ہزاروں افراد نے احتجاجوں پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مظاہرے کیے۔پولس مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پوری سہ پہر پانی کی بوچھار ما رتی، مرچی پاؤڈر کا اسپرے کرتی اور اشک آور گولے چھوڑتی رہی اور پھر180سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا جن میں سے سات کی گرفتاری نئے قومی سلامتی قانون کے تحت عمل میں لائی گئی ہے۔
یہ مظاہرے اس شورش زدہ شہر پر چین کی جانب سے ایک متنازعہ قانون نافذ کیے جانے کے ایک روز بعد کیے گئے۔ چین کے اس اقدام کو مغربی حکومتوں نے ہانگ کانگ کی آزادی اور خود مختاری پر غیر معمولی حملہ قرار دیا۔چین نے کہا کہ قانون سے استحکام پیدا ہوگا۔ کئی سیاسی نظریات و علامتیں بشمول ہانگ کانگ، تائیوان ، شن جیانگ اور تبت کی آزادی کی حمایت راتوں رات غیر قانونی قرار دے دی گئیں۔
پولس نے بتایا کہ قومی سلامتی قانون کے تحت کی جانے والی پہلی گرفتاریاں جن دو لوگوں کی ہوئیں وہ آزادی کی ترغیب دینے والے بینر اٹھائے تھے۔وزیر برائے امور سلامتی جان لی نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ہانگ کانگ کی آزادی کی وکالت کرنا خلاف قانون ہے۔اور بدھ کے روز جو لوگ احتجاج کر رہے تھے وہ آزادی کے نعرے لگا رہے تھے۔ایک49سالہ شخس نے کہا کہ یہ مطلق العنانہ حکومت عوام کو ہراساں کرنا اور سڑکوں پر اترنے سے روکنا چاہتی ہے۔پولس کے مطابق ایک افسر کو اس وقت چھرا مار کر زخمی کر دیا گیا جب وہ ایک شخص کو گرفتار کر رہا تھا۔نقادوں اور امریکہ قیادت والی مغربی حکومتوں نے اس قانون پر ملامت کرتے ہوئے خدشات ظاہر کیے کہ اس قانون سے براعظم میں سیاسی طور پر دبانے کا ایک نیا سورج طلوع ہوگا۔
برطانیہ، فرانس ، جرمنی اور جاپان سمیت دو درجن سے زائد ممالک نے یہ کہتے ہوئے کہ قانون چونکہ شہر کی آزادیوں کو سلب کرتا ہے چین سے پرزور اپیل کی کہ وہ اس قانون پر نظر ثانی کرے ۔ دریں اثنا کنیڈا نے ہانگ کانگ میں اپنے شہریوں کو انتباہ دیا کہ ان کے لیے جبراً گرفتاری یہان تک کہ چین کے حوالے کیے جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ واضح ہو کہ 1997میں برطانیہ سے واپس لینے سے پہلے ایک معاہدے کے تحت چین نے ہانگ کانگ کو ”ایک ملک دو نظام“ کے نام سے معروف 2047تک شہری آزادیوں نیز عدالتی و پارلیمانی خود مختاری دینے کی ضمانت دی گئی تھی۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پوم پیو نے کہا کہ چین نے ہانگ کانگ کے لوگوں کو 50سال تک آزادی دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن صرف23سال ہی انہیں آزاد ی دی گئی۔لیکن چین کا کہنا ہے کہ غیرممالک کو قانون کے بارے میں خاموش ہی رہنا چاہئے جبکہ ہانگ کانگ لے لیڈر کیری لیم نے قانون کو سراہتے ہوئے اسے شہر کی چین کو حوالگی کے بعد انتہائی اہم واقعہ سے تعبیر کیا۔گذشتہ سال زبردست جمہوریت حامی مظاہروں کے، جو اکثر تشدد میں بدل گئے،بعد حکام نے اپان رویہ نہایت سخت کر لیا اور یہاں تک کہ حالیہ مہینوں میں پر امن ریلیوں کو بھی برداشت نہیں کیا۔
یکم جولائی کو منائی جانے والی سالگرہ طویل عرصہ سے شہر کے لیے یوم یک قطبیت ہوتا ہے۔چین کے وفادار ہانگ کانگ کی ڈیڑھ سو سال بعد چینی مادر وطن کو واپسی کا جشن مناتے ہیں ۔