House panel votes to constrain Afghan drawdown, ask for assessment on 'incentives' to attack US troopsتصویر سوشل میڈیا

واشنگٹن: سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی نے افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی کے لیے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اختیار پر انکش لگانے بشمول یہ اندازہ لگانے کے لیے آیا کسی ملک نے امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملہ کے لیے طالبان کو مراعات کی پیش کش کی ہے اپنی منظوری دے دی۔ کولو راڈو سے ڈیموکریٹک نمائندہ جیسن کروو کی پیش کردہ قومی دفاعی اختیارات قانون(این ڈی اے اے) ترمیم کی رو سے افغانستان سے امریکی فوج کی تعداد میں کمی سے پہلے متعدد وضاحتیں دینا ہوں گی۔یہ ترمیم11کے مقابلہ45ووٹ سے منظور کر لی گئی۔

کانگریس انتخابی حلقہ ویومینگز سے نمائندہ ایلزبتھ لینز چینی نے دلیل دی کہ یہ ترمیم نہایت خصوصی ذمہ داری سے ترتیب دی گئی ہے جس کی رو سے افغانستان میں فوج کی تعداد کے حوالے سے فیصلے کرنے کے لیے کئی معاملات دیکھنے ہوں گے اور سیاسی خطوط کی بنیاد پر نہیں بلکہ زمینی صورت حال اور خود اپنی سلامتی کے تقاضوں کی بنیاد پر فوجی سطح طے کرنا ہوگی۔اور یہ نہایت اہم ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہماری ولیں ترجیح ہے۔

یہ ترمیم اس لیے کی گئی ہے کیونکہ امریکی فوج کی واپسی سے متعلق طالبان کے ساتھ ٹرمپ کا معاہدہ غیر مستحکم ہے کیونکہ افغانستان میں زبردست تشدد کے خطرات برقرار ہیں۔امریکی فوج کے مطابق معاہدے کے مطابق جولائی کے وسط تک امریکی فوج کی تعداد میں تخفیف کر کے 8600کر دی جائے گی۔لیکن فوجی عہدیداروں کا اصرار ہے کہ باوجود اس کے کہ مزید تخفیف کن شرائط کی بنیادپر ہو گی اس کی ابھی وضاحت نہیں ہوئی ہے،ٹرمپ سرعت کے ساتھ فوج کی واپسی پر زور دے رہے ہیں۔یہ ترمیم امریکہ میں اس سنسنی خیز خبر کے درمیان کی گئی ہے کہ انٹلی جنس رپورٹوں سے انکشاف ہوا ہے کہ روسی فوجی یونٹ نے افغانستان میں امریکی اور اتحادی فوج کے فوجیوں کو ہلاک کرنے کے لیے طالبان سے وابستہ ملیشیا کو کثیر رقومات دی ہیں۔

ترمیمی قانون کے تحت جن تقاضوں کو پورا کیا جانا ہے ان میں یہ ہے کہ اس بات کا پتہ لگایا جائے کہ گذشتہ دو سال کے دوران کسی ملک نے طالبان ، ان کے حلیفوں اور وابستہ تنظیموں، یا دیگر دہشت گرد تنظیموں کو امریکی، اتحادی یا افغان سلامتی دستوں یا غیر فوجیوں پر حملوں کے لیے کوئی مالی اعانت تو نہیں دی ،علاوہ ازیں اس امر کا بھی سراغ لگایا جانا چاہئے کہ جو حملے کیے گئے ہیں وہ اس قسم کی مالی اعانت سے تو منسلک نہیں ہیں۔ ماسا چوست سے ڈیموکریٹک نمائندہ سیتھ مولٹن نے کہا کہ جو انکشافات ہوئے ہیں ان کی روشنی میں یہ ترمیم نہایت اہمیت کی حامل ہےانہوں نے کہا کہ طالبان کے ساتھ ٹرمپ کے ایک ناقص اور کمزور معاہدے کی ، جس کی عمل آوری سے پہلے ہی دھجیاں اڑا دی گئیں، دونوں پارٹیاں تنقید کر رہی ہیں ۔

اب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب امریکی فوجیوں ، امریکی بیٹوں اور بیٹیوں کے سر وں پر انعام رکھا جا رہا تھا اور دولت لٹائی جارہی تھی۔ہم کو واضح طور پر اس کی مزید نگرانی کرنا ہوگی کہ صدر افغانستان میںکیا کر رہے ہیں۔کرو کی ترمیم کی رو سے 8000سے کم اور اس کے بعد پھر4000سے کم فوجیوں کو اس وقت تک فنڈ دینا روک دیاجائے گا جب تک کہ ٹرمپ ایڈمنسٹریشن اس کی تصدیق نہ کر دے کہ اس اقدام سے افغانستان میں امریکہ کے انسداد دہشت گردی مشن پر کوئی آنچ نہیں آئے گی ،نہ وہاں امریکی فوجیوں کے لیے کوئی خطرہ ہوگا ،معاہدہ اتحادیوں سے مشاورت کے بعد کیا گیا اور یہ امریکہ کے بہترین مفاد میں ہے۔اس ترمیم کی رو سے طالبان سے درپیش خطرات میں کمی کے اثرات ،حقوق انسانی اور شہری حقوق کی صورت حال ، افغان امن عمل کے اثرات ،افغان سلامتی دستوں کی صلاحیت اور افغان اقتدار اعلیٰ پر شر پسند عناصر کے اثر کے حوالے سے تجزیہ پیش کرنا ہوگا۔

فلوریڈا کے ریپلکن نمائندہ میٹ گائز نے، جو ٹرمپ کے زبردست مداح اور گہرے دوست ہیں دلیل دی کہ یہ ترمیم غیر منصفانہ طور پر ٹرمپ انتظامیہ کے ہاتھ باندھ دے گی۔انہوں نے کہا کہ ایک عظیم قوم کبھی اسے پسند نہیں کرے گی کہ ان کی آنے والی نسل وہ جنگ لڑے جو انہوں نے شروع کی تھی ۔اور یہ ایسا ہی جیسا ہم نے افغانستان کے حوالے سے کیا ہے۔گائز نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکہ کا جنگ نہ لڑنے کا بہترین دن وہ تھا جس دن ہم نے جنگ شروع کی تھی اور اب اگلا بہترین دن کل ہو گا۔انہون نے کہا کہ میں نہیں سمجھتا کہ افغانستان میں جنگ ختم کرنا کبھی برا دن کہلائے گا۔ہماری نسل اس جنگ سے اکتا چکی ہے اور بری طرح تھک گئی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *