کابل: (اے یو ایس ) صدف گزشتہ سال افغان اٹارنی جنرل کے دفتر میں کام کرتی تھی۔ یہ دفتر دارالحکومت کے مضافات میں تھا۔ اچانک اسے ا س کی بہن نے فون پر بتایا کہ دارالحکومت میں طالبان داخل ہو چکے ہیں۔ اس لیے فورا گھر بھاگ جاو¿ ، اپنا چہرہ ڈھانپ لو کسی کہ نہ بتاو کہ تم کہاں کام کرتی ہو۔ یہ کہتے ہوئے صدف کی بہن کی آواز خوف کے مارے کانپ رہی تھی جب یہ سب کچھ ہوا صدف نہیں جانتی تھی کہ وہ اپنے ہی ملک میں جلاطنی کی زندگی گذارے گی۔چھپ چھپ کر رہنے والی زندگی کہ ہزاروں دوسرے افغانیوں کی طرح وہ بھی موت سے بچ سکے۔ گذشتہ ایک سال اس نے کئی مکانوں میں چھپ چھپ کر گذارا ہے۔ تاکہ اپنی ڈیجیٹل شناخت کو ظاہر نہ ہونے دے اور اپنے خاندان کو طالبان کے تعاقب سے بچائے رکھے۔جب اس کی بہن نے اسے طالبان کے کابل پر قبضے کی خبر سنائی تھی تو صدف نے فورا اپنا بیگ پکڑا تھا اور اپنے دفتر سے تیزی سے نکل بھاگی تھی۔ بس یہ کیا تھا کہ اپنے چہرے پر اسکارف کو نیچے کیا اپنے دفتری شناختی کارڈ کو اپنے جوتے میں چھپایا اور چل پڑی۔باہر اسے ہر طرف افراتفری نظر آئی۔
گلیاں رش سے بھر چکی تھیں۔ لوگوں کی دوڑ تھی کہ ہر طرف لگ رہی تھی تاکہ ملک سے بھاگ جانے کی کوئی صورت نکل آئے۔ صدف نے ایک سواری پکڑی اور دو گھنٹے بعد وہ کابل سے باہر اپنے گھر پر تھی۔ اس نے اپنے تینوں بچوں کو بے تابی سے گلے لگایا اور پھر بیڈروم کا دروازہ بند کر کے چھپنے کی سی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنی شناخت اور دفتر کے کام سے متعلق ہر کاغذ گٹر میں پھینک دیا۔صدف کہتی ہیں کہ وہ خوفزدہ تھیں۔ جنہوں نے 25 سال سرکاری دفتر میں کام کیا تھا ، اپنی نصف عمر سے زیادہ مدت کے لیے۔ 48 سالہ صدف اس قدر خوف زدہ تھی کہ اس نے کہا اس نام کا آخری حصہ نہ شائع کیا جائے۔طالبان نے دو مرتبہ ان کی گاڑیوں کو بموں سے اڑا دیا تھا۔ ان دو حملوں کے دوران صدف بھی زخمی ہو چکی تھی جبکہ اس کے ساتھ کام کرنے والے کئی لوگ مارے گئے تھے۔’ اب میں ایسا کچھ نہیں کرنا چاہتی کہ طالبان کے ہاتھ لگ جاؤں۔’ اس نے اپنے موبائل فون میسج کے ذریعے افغانستان کی نا معلوم جگہ سے کہا۔طالبان کے کابل فتح کر لینے کے ایک ہفتہ بعد اس کے گھر کے باہر کچھ لوگوں نے دستک دی ، پھر اس کے گھر کی کئی گھنٹے تلاشی لی۔ وہ جانتے تھے کہ صدف کہاں کام کرتی تھی۔ اس لیے یہ انتباہ کر کے چلے گئے کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعد اگلے ہی روز صدف نے اپنا سامان باندھا ، اپنے بڑھئی شوہر اور بچوں کو لے کر گھر سے فرار ہو گئی۔ تب سے اب تک وہ رشتہ داروں اور دوستوں کے گھروں میں رہ رہی ہے۔ وہ کہیں بھی دو ہفتوں سے زیادہ نہیں رکتی۔
صدف سابق افغان حکومت کے حکام اور اہل کاروں کی طرح ان دسیوں ہزار لوگوں کی طرح ہے۔ ان میں سابق جج حضرات بھی ہیں، پولیس والے بھی ہیں، انسانی حقوق کی تنظیموں کے لیے کام کرنے والے بھی۔ یہ سب خوف و ہراس میں مبتلا ہیں اور پچھلے ایک سال سے چھپتے پھر رہے ہیں۔ انہیں ایک خوف یہ ہے کہ وہ اپنی ڈیجیٹل شناخت کی وجہ سے اور سرکاری ڈیٹا کی وجہ سے پکڑے نہ جائیں جو طالبان کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ایک سال کے دوران انسانی حقوق کی تنطیموں اور اقوام متحدہ نے ڈیٹا مرتب کیا ہے جنہیں طالبان کے آنے کے بعد ہلاک کر دیا گیا، یا غائب ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ لوگ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ ان میں سابق فوجی افسران بھی ہیں، ہم جنس پرست مرد اور خواتین بھی ہیں، جج بھی ہیں اور صحافی بھی۔دوسری بہت سی غریب اقوام کی طرح افغانستان نے بھی اپنا ڈیٹا ڈیجٹلائز کرنے کی کوشش کی تھی۔ ان پراجیکٹس کے لیے ورلڈ بنک ، امریکہ، یورپی یونین، اقوام متحدہ، پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے، اور عالمی ادارہ خوارک سمیت دوسرے کئی اداروں نے وسائل اور مہارت فراہم کی تھی۔ان پروگراموں میں سے ایک تذکرہ کے نام سے ہے۔ اسی کے تحت ایک شہری کی دولت کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور اس کے بارے میں نجی معلومات درج کی جاتی ہیں۔ اسے پاکستان کے نادرہ کا ہی دوسرانام سمجھ لیں۔ جس کے پاس سب سے بڑا انسانی ڈیٹا بنک ہے۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ملازمت، ووٹ، کا امکان ہوتا ہے۔انسانی حقوق گروپ نے اس حوالے سے ایک مشکل یہ بیان کی ‘ اب یہی ڈیٹا طالبان کے پاس ہے۔ ان نسلی معلومات کو بھی ایکسپوز کرنے کا ذریعہ ہوتا ہے جو ان کی زندگیوں کے لیے مشکل بڑھا سکتا ہے، اس ڈیٹا میں غیر ملکوں کے ساتھ کام کرنے والے بی شامل ہیں اور غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے کام کرنے والی افغانی بھی۔
‘افغان سول سوسائٹی فورم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عزیز رفیع جنہیں ہر روز ان چھپ کر زندگی گذارنے والوں ہر روز سینکڑوں میسج آتے ہیں نے کہا ‘ اب تو ہر کوئی مشکل میں ہے اور ہر کوئی کمزور ہے۔’عزیز رفیع نے کہا ، اس طرح کا ڈیٹا جمع کرنا پہلے دن سے ہی غلط تھا کہ افغانستان ایسے ملک میں کسی بھی وقت یہ ڈیٹا ‘ دہشت گرد گروپوں’ کے ہاتھ لگ سکتا ہے۔ جس کے بعد کوئی قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔ عزیز رفیع نے انکشاف کیا اس نے اسی خوف کی وجہ سے آج تک اسی لیے ‘تذکرہ ‘ کا حصہ بننا پسند نہیں کیا۔اس سال کے شروع میں ہیومن رائٹس واچ نے تصدیق کی تھی کہ طالبان یہ ڈیٹا استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے ان کی سابق فوجی حکام ، پولیس افسران، غیر ملکی حکومتوں اور امدادی ایجنسیو کے ساتھ کام کرنے والوں کے ڈیٹا کے ذریعے رسائی ممکن ہے۔ ہیومن رائٹس کی سینئیر ریسرچر بلقیس ولی کے مطابق طالبان بائیو مٹریکس کے ذریعے، تصاویر کے ذریعے لوگوں شناخت کرتے ہیں۔ اس لیے جو لوگ گھروں میں چھپے ہوئے ہیں ان کے لیے باہر نکلنا ممکن نہیں ہے۔ جو پاسپورٹ کے حصول کے لیے جاتا ہے تو اس کی ساری شناخت بھی فورا سامنے آجاتی ہے۔ بلقیس ولی نے کہا’ اب پکڑے جانے کو روکے رکھنا ممکن نہیں رہا ہے۔’تاہم ڈیٹا بیس کے حامی لوگوں کی دلیل مختلف ہے وہ سمجھتے ہیں کہ امداد کے حصول میں اس ڈیٹا کی وجہ سے آسانی اور درستی رہتی ہے۔
اس ڈیٹا کی وجہ سے فراڈ بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ اس ڈیٹا بیس کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہی ڈیٹا پروفائلنگ کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور نگرانی کے لیے بھی۔ یوں بہت سے لوگوں کے لیے یہ چیز کمزوری بن جاتی ہے۔ چرن جیت سنگھ چیمہ ڈیجیٹل رائٹس گروپ کے عہدے دار ہیں ، ان کا کہنا ہے ‘ افغانستان میں یہ ڈیٹا بیس نشاندہی کرتا ہے کہ اس پر غور کیے بغیر مرتب کرنا کہ اس کے منفی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ خصوصا ناپسندیدہ حکومتیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے لیے کیسے استعمل کر سکتی ہیں۔پچھلے ایک سال کے دوران ڈیجیٹل رائٹس گروپس نے غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کو لکھا ہے کہ وہ اپنے ڈیٹا حاصل کرنے کے نظام پر دوبارہ گور کریں۔ یہ بات غیر ملکی ڈونرز اور ٹیلی کام سے متعلق اداروں سے بھی کہا گیا ہے۔ چیمہ نے کہا ‘ ڈیجیٹل آئی ڈی پروگرام کے مضمرات سنگن نوعیت ہیں۔ اس کے برے اثرات انسانی حقوق کے حوالے سے ہیں۔ ‘ اس لیے صدف ابھی تک چھپی ہوئی ہے۔صدف کا کہنا ہے روزگار نہیں ہے۔ اب ایک طرف غربت ہے اور دوسری جانب پکڑے جانے کا مسلسل خوف ہے ، اس لیے زندگی بہت مشکل ہو گئی ہے۔
