How did India overlook Tablighi, world’s largest radical organization ?علامتی تصویر سوشل میڈیا

ہندوستان میں جہادی دہشت گردی سے متعلق دانشورانہ اور صحافتی گفتگو زیادہ تر بین الاقوامی اور پاکستانی دہشت گرد تنظیموں کے گرد گھومتی ہے۔ اور اس آڑ میں جماعت اسلامی اور امریکہ ، برطانیہ اور کینیڈا میں اس کے درپردہ خیراتی اداروں کے ساتھ ساتھ پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا جیسے غیر متشدد اور نیم متشدد اسلام پسند گروپ اب تک کم و بیش انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی توجہ سے بچنے میں کامیاب رہے ہیں۔
تاہم ، حال ہی میں سخت تحقیقات سے معاشرے کو انتہاپسند بنانے اور کشمیر میں دہشت گرد تنظیموں کی مدد کرنے میں جماعت اسلامی کے عناصر کے کردار کے انکشاف کے بعد ، وزارت داخلہ کو اس پر پابندی عائد کرنے پر مجبور کیا گیا۔ دیگر قانونی اسلام پسند گروپ ،جوخود بھی پرامن رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں، سماجی تنظیمیں، آخر کار ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں کی تحقیقات کے دائرے میں آگئیں۔ اس کی ایک قابل ذکر مثال تبلیغی جماعت (ٹی جے) ہے ، جو کئی عشروں سے ہندوستان کے طول و عرض میں سرگرم ہے کھلے عام لاکھوں افراد کی بھرتی کرتی ہے اور اس کے بنیاد پرست نظریات کے پھیلاو¿ کے لیے مغرب میں ایک زرخیز زمین تیار کرنے کے باوجود ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر کافی احتیاط سے نظریں رکھے ہیں۔
اس کے باوجود تبلیغی جماعت نہایت ہوشیاری اور رازداری سے کام کرتی ہے ۔ تبلیغی جماعت مسلمانوں کے سخت گیر دیوبندی فرقہ کا ایک گروپ ہے۔ تبلیغی جماعت جو ایک عالمی مشنری تحریک ہے دنیا کا سب سے بڑا اسلامی نیٹ ورک چلاتی ہے جس کے دنیا کے کم و بیش 150 سے زائد ممالک میں 70-80 ملین اراکین ہیں۔ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں ہونے والے اس کے اجتماعات، شرکت کے اعتبار سے حج کے بعد دوسرے سب سے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں ۔
حقیقت میں ، ٹی جے ایک انتہائی کٹر مذہبی نظریہ کی تبلیغ کرتی ہے۔ یہ گروپوں کی شکل میں گھر گھر جا کرمسلمانوں کو اسلام کی دعوت دیتی ہے دراصل ٹی جے انتہائجی کٹر مذہبی نظریہ کی دعوت دیتی ہے۔ جس میں ایک مسلمان کی زندگی کے ہر پہلو کو ٹی جے کے ضوابط کے مطابق ڈھالاجاتا ہے۔
ٹی جے کے فلسفے کا نچوڑ سخت تقویٰ اور ٹی جے کے اعتقاد پر عمل پیرا ہو کر بیرونی دنیا کے فتنے سے محفوظ رکھنا ہے۔ ٹی جے کا خیال ہے کہ صرف ایک بار امت نفس کی پاکیزگی کر لے تو غیر مسلموں میں اسلام پھیلایا جاسکتا ہے۔ ٹی جے کے بارے میں مکمل معلومات رکھنے والے فرانسیسی مارک گیبی ریوکے مطابق ٹی جے کا مقصد دنیا کی منصوبہ بند فتح” سے کم نہیں ہے۔
ٹی جے کا اثر و رسوخ کو وسیع پیمانے پر محسوس کیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں ، ٹی جے مسلم برادریوں کو ہندوانہ رسم و رواج اور ہندو میراث ا ور اثر و رسوخ سے نجات دلانے کے لئے کام کر رہی ہے ، جس پر ہڈسن انسٹی ٹیوٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ ٹی جے نے بنگلہ دیشی معاشرے کی بنیاد پرستی کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے۔ شمالی کشمیر میں ایک سینئر پولیس افسر نے ہمیں بتایا کہ دہشت گرد گروپ حزب المجاہدین ٹی جے کے مذہبی تربیتی پروگرام کے تحت اپنے لوگوں کو 40 دن(چلہ) کے لیے بھیجتا ہے جس کے بعد انہیں تنظیم میں شامل ہونے کی اجازت مل جاتی ہے۔ شمالی اور مشرقی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ٹی جے کے کارکنوں کو کشمیر کے دورے کے دوران جماعت اسلامی جیسی مقامی جماعتوں اور متشدد انتہا پسندوں کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت یا مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ٹی جے میں سرگرم عناصر خاص طور پر کشمیر میں انٹرنیٹ بند ہونے کے دوران پیسوں اور پیغامات کی نقل و حرکت میں ان کی مدد کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق ٹی جے کشمیر کے دیوبند مدارس میں نوجوانوں کو انتہاپسند بنانے میں بھی ملوث ہے۔ ماضی میں اس کا علم ہونے کے بعد کہ ان مدرسوں کے طلبا کو دہشت گردی کی تربیت کے لئے بھیجا جاتا ہے متعدد مدارس پر پابندی عائد کردی گئی تھی ۔
اننت ناگ ضلع کا مرہاما گاو¿ں ، جہاں پلوامہ خودکش دھماکے کی سازش رچی گئی تھی ، وہاں دیوبند کا ایک بہت بڑا اور بارسوخ مدرسہ ہے ، جس کے تدریسی عملہ میں ٹی جے مبلغین بھی شامل ہیں۔ یہ علاقہ دیوبندی دہشت گرد گروہ جیشِ محمد کا مضبوط گڑھ ہے۔
اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک ممتاز بریلوی سنی مسلم رہنما ، جس نے پچھلے 25 سالوں سے ٹی جے کے کام کا زمینی مطالعہ کیا ہے ، ہمیں بتایا کہ ٹی جے ایک مخصوص مدت کے لازمی سفر کی شرط(جو دنیا بھر میں ٹی جے اراکین پر لاگو ہوتی ہے) پوری کرنے کے بعد ان کی بھرتی کرتی ہے، اور پھر اکثر و بیشتر انہیں پاپولر فرنٹ آف انڈیا ، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا ، اور ساتھ ہی جماعت اسلامی جیسی معروف تنظیموں میں شامل ہونے کے لئے بھیجا جاتا ہے۔
بریلوی مسلک والوں کے پاس اپنے دیوبندی حریفوں کے اس مشنری بازو کے حوالے سے فکر مند ہونے کا خاصا مناسب سببہے۔ ٹی جے کے کارکن طویل عرصے سے ہندوستان کے گاو¿ں اور شہروں میں بریلوی مساجد پر قبضے کرنے اور کرانے میں نمایاں طور پر ملوث رہے ہیں۔ ابتدائی طور پر ٹی جے وقف بورڈ کی توثیق کے سہارے اپنے ممبروں کے ساتھ مقامی مسجد کی انتظامیہ کمیٹی میں دراندازی کی کوشش کرتی ہے اور اس مسجد کو دیوبندی مسلک کی مسجدکے طور پر دوبارہ رجسٹر کر کرکے کسی نہ کسی بہانے یا حربے سے بریلوی اماموں اور انتظامیہ کو بے دخل کر دیا جاتا ہے جو ان دونوں گروہوں کے مابین پ±رتشدد جھڑپوں کا باعث بنتا ہے ۔
خطہ قومی دارالحکومت میں ٹی جے کے کارکنوں نے 150-200 بریلوی مساجد پر دیوبندی مسلک کے لوگوں کا قبضہ کرایاہے۔ گجرات میں ، ٹی جے اور دیوبندیوں نے80 فیصدمساجد پر قبضہ کر لیا ہے۔ جے پور میں ایسے ہی ایک واقعہ میں ، جہاں ٹی جے کیڈروں نے زور زبردستی سے کربلا مسجد پر قبضہ کیا تھا فوجداری تحقیقات شروع کی گئیں لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے بظاہر صرف اس تکنیکی نقطہ کی وجہ سے کہ ٹی جے باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ تنظیم نہیں ہے ، معاملہ کی پیروی کرنے میں ناکام رہے ۔ دیوبندی اسلام کی ایک ایسی بنیاد پرستی کی تعلیم دیتے اور اس پر عمل کراتے ہیں جس سے انتہا پسندی اور دہشت گردی س کی راہ پر آسانی سے ڈالا جا سکتاہے۔ ٹی جے کا مساجد پر قبضہ کا سلسلہ جاری ہے اور ساتھ ہی دیوبندی اثر و رسوخ کا خطرہ بھی بڑھ رہاہے۔ اور یہ صرف ہندوستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ ٹی جے اور سخت گیر دیوبندیاں ایک عالمی مسئلہ ہیں۔
ٹی جے مغرب میں:
ٹی جے 1945 سے جب سلطنت برطانیہ کے دور میں ٹی جے مشنریوں کو ہندوستان سے انگلینڈ بھیجا گیا تھا ، یورپ میں سرگرم ہے ۔ غیر مسلم ماحول میں کام کرتے ہوئے ، ٹی جے کی سرگرمیاں جنوبی ایشیا میں اپنی سرگرمیوں کے مقابلے سے کہیں زیادہ پرسکون اور محتاط رہی ہیں۔وہ متعدد مغربی مسلم برادریوںمیں اس قدر محتاط انداز میں کام کرتے رہے کہ کئی دہائیوں تک کسی کو اس کے وجود کا پتہ بھی نہیں چل سکا۔ ۔ لیکن مغربی مسلم برادریاں ٹی جے کے لئے خاص طور پر ایک اہم ہدف تھیں۔ سیکولر دنیا کی فحاشی، خاص طور پر 1960 اور 1970 کی دہائی میں ، مذہبی قدامت پسندوں کو اعتدال پسند مسلم برادریوں میں جو موسیقی ، رقص اور مخلوط صنف کے واقعات سے لطف اندوز ہوتے تھے ، سخت ناپسند تھی۔ اس لیے یہ محسوس کیا گیا کہ ٹی جے کی یہ اہم ذمہ داری ہے کہ وہ یہاں مسلم برادریوں کو اسلام کی جانب راغب کرنے کے لئے کام کرے۔صحافی اینیس بوون برطانیہ میں ٹی جے کی سرگرمی کے بارے میں لکھتے ہوئے ایک ابتدائی مشنری کا حوالہ دیتے ہیں جس نے لکھا ہے بے حیائی کا بازار عروج پر ہے اور شیطان نے یہاں ایک وسیع اور سخت جال بچھا رکھا ہے۔بہت بعد میں ، 1990 کے عشرے میں ، ایک اور برطانوی ٹی جے اہلکار نے اعلان کیا:تبلیغی کا ایک بڑا مقصد امت مسلمہکو یہودیوں ، عیسائیوں اور (دوسرے) دشمنان اسلام کی ثقافت اور تہذیب سے نجات دلانا ہے تاکہ اس طرح کی نفرت پیدا کی جاسکے جس طرح انسان پیشاب پاخانے سے مفرت کرتا ہے ۔

ہندوستان اور بقیہ جنوبی ایشیاکی طرح ، ٹی جے نے بنیادی طور پر دیوبندی نیٹ ورکس کے ذریعہ یورپ میں کام کرنے کی کوشش کی۔ ماہر تعلیم فلپ لوئس نے اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ در حقیقت یورپ میںسب سے اہم دیوبندی ادارہ دارالعلوم بری ، ہندوستان کے ٹی جے کے رہنما محمد زکریا کے حکم پر قائم کیا گیا تھا ، جس نے ٹی جے کے لازمی نصاب فضائل اعمال لکھا تھا۔
شمالی انگریزی کے شہر ڈیوسبری میں دوسرا دارالعلوم ، 1970 کے آخر میں قائم ہوا تھا ، جو ہندوستان اور پاکستان سے باہر ٹی جے کے ایک اہم ادارہ بن گیا تھا – در حقیقت ، یہ یورپ میں ٹی جے کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر جانا جاتا ہے۔
ڈیوزبری کو بنیادکے طور پر استعمال کرتے ہوئے ، ٹی جے مشنریوں نے یورپ اور باقی دنیا کا سفر کیا ، پیروکاروں کی بھرتی کی اور مسلم برادری کو اسلام کی طرف راغب کیا۔ ایک نئے شہر میں پہنچنے کے بعد ، یہ مشنری جلد ہی شہر ، ریاست اور ملک بھر میں مساجد میں پھیل جاتے تھے ، عام طور پر میزبان اسلامی مراکز کے فرش پر چٹائیوں پر سوتے تھے۔ کچھ رپورٹوںکے مطابق ، مغرب میں ٹی جے مشنریوں کی ایک مشترکہ تدبیر اور چال یہ ہے کہ اچانک چھوٹے چھوٹے گروپوں کی شکل میں ان مسلم افراد کے گھر پہنچا جائے جنہیں کسی مسجد میں نہیں دیکھا گیا ۔

کچھ معاملات میں ، ٹی جے مشنریوں نے یوروپ میں جنوبی ایشیائی برادریوں میں دیوبندی مکتب فکر کی توسیع کے لئے ایک اہم مقام کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ یہ ایک سود مندسرمایہ کاری تھی۔ دیوبندی مسلک کے وجود میں توسیع میں ٹی جے کی مدد نے دیوبندی مساجد کا ایک وسیع نیٹ ورک تیار کر دیا اور کئی عشروں بعد یہی مساجد ٹی جے مشنری کے کام کی کلیدی چوکیوں کے طور پر خدمات انجام دینے لگیں۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ٹی جے نے ہندوستان کی طرح مغرب میں بھی دیوبندیوں کومساجد پر قبضہ کرنے میں مدد فراہم کی ہے ۔ لیکن یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ برطانیہ میں 30 لاکھ مسلمانوں میں سے ایک اندازے کے مطابق صرف 20 فیصد دیوبند ہیں اور اس کے باوجود وہ 40 فیصد مساجد پر قابض ہیں۔
فرانس میں ، جہاں ٹی جے جنوب ایشیائی کی اتنی بڑی آبادی پر انحصار نہیں کرسکتا تھا ، اس نے شمالی افریقہ ک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کو بھرتی کیا ہے۔ ایک ماہر تعلیم نے لکھا ہے کہ متعدد ٹی جے مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ فرانس میں اب یہ تحریک مسلم زندگی کے روز مرہ کے تانے بانے کا ایک حصہ بن گئی ہے۔
اینیس بوون کے مطابق یورپ میں ٹی جے کے اجتماعات بغیر کسی ویب سائٹ ، پریس ریلیز ، یا دیگر اشتہاری مواد کے ہزاروں افراد کو اپنی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ ٹی جے بڑی حد تک ایک خفیہ قوت بنی ہوئی ہے ، جس کی جانب صرف اس صورت میں عوام کی توجہ مرکوز ہوتی ہے جب اس کا اثر اتفاقاً بے نقاب ہوجاتا ہے۔
ریاستہائے متحدہ میں ، ٹی جے کا اندازہ کچھ مختلف رہا ہے۔ وہ1950 میں پہلی بار وہاں پہنچی تو ٹی جے نے پایا کہ دیوبندیوں کی نسبتاً قلیل تعدادکے لئے انھیں مسلم کمیونٹی کے نئے شراکت دار ڈھونڈنے اور اپنے بل پرمساجد قائم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے میںاکثر ایسے سیاہ فام امریکیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے جنہوں نے حال ہی میں بڑی تعداد میںیک نئی نظریاتی فکر کی تلاش میں نیشن آف اسلام کو چھوڑ دیا تھا ( نیشن آف اسلام ایک دینی اور سماجی و سیاسی تنظیم ہے جس کو والس فارڈ محمد نے 1930میں امریکا میں قائم کیا۔ اس کے بانی کے مطابق اس کے قیام کا مقصد امریکا اور باقی دنیا میں سیاہ فام مردوں اور عورتوں کی روحانی، ذہنی، سماجی اور اقتصادی حالت کا احیا تھا)۔
آج در حقیقت مریکہ میں ٹی جے کی مساجد دنیا کے کونے کونے سے آنے والے نو مسلموں اور تارکین وطن کی خدمت کر رہی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ میں ٹی جے کے 15 ہزار کارکنان سرگرم ہیں ، جن میں سے ، صرف 60 فیصدجنوب ایشیائی ہیں۔
کچھ لوگ نیو یارک سٹی کی الفلاح مسجد کو ٹی جے کے امریکی ہیڈکوارٹر کے طور پر سمجھتے ہیں جو غیر معمولی طور پر اپنی ویب سائٹ پر کھلے عام اس کی ٹی جے شناخت کو تسلیم کرتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس برطانیہ میں دارالعلوم ڈیوسبری ، جو جنوبی ایشیا سے باہر ٹی جے کا سب سے اہم مرکز ہونے کے باوجود ، ٹی جے سے کسی بھی طرح کے عوامی رابطے کا اعتراف نہیں کرتا ۔ امریکہ میں ٹی جے کے دیگر ممتاز مراکز میں شکاگو ، سان ڈیاگو اور لاس اینجلس شامل ہیں۔
1980 اور 1990 کی دہائی میں ، ٹی جے نے شمالی امریکہ میں زیادہ واضح طور پر کام کیا ، جس طرح آج کے ہندوستان میں اپنی کارروائیوں کی طرح ہے۔ اس نے شکاگو اور ٹورنٹو میں کھلے عام کانفرنسوں کا انعقاد کیا ، جس میں کئی ہزاروں نے شرکت کی۔ 9/11 کے بعد ، تاہم ، ٹی جے کی سرگرمی زیادہ محتاط رہی ، اور اس کی سرگرمیاں بہت کم ہوگئیں ۔ کچھ تجزیہ کاروں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آج ٹی جے کا نسبتا غیر نمایاںوجود اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس نے اپنا اثر و رسوخ کھو دیا ہے۔ اگرچہ اس حقیقت کے ساتھ کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی مساجد میں ٹی جے مشنریوں کی موجودگی جاری ہے ، اور یہ کہ حالیہ بہت سارے جہادی ٹی جے کے اجتماعات میں شرکت کر چکے ہیں، یہ دعویٰ کرنا مشکل ہے کہ ٹی جے کی اہمیت کم ہو گئی ہے یا اس کا اثر و رسوخ کم ہو گیا ہے۔
ہندوستانی انٹیلی جنس سروسز کے کچھ حد تک بر عکس مغربی اہلکار کئی عشروں سے تبلیغی جماعت کے خطرناک اثر و رسوخ سے باخبر تھے۔ امریکی عہدیداروں نے 2003 میں کہا تھا کہہماری ریاستہائے متحدہ میں تبلیغی جماعت کی نمایاں موجودگی ہے اور ہمیں پتہ چلا ہے کہ القاعدہ انہیں آج بھی اور ماضی میں بھی بھرتی کرنے کے لئے استعمال کرتی رہی ہے۔ 2000 کے عشرے کے اوائل میں ، ایک پاکستانی انٹیلی جنس ذریعہنے دعوی کیا تھا کہ پاکستان یا افغانستان میں 400 امریکی دہشت گردوں کی بھرتی امریکی ٹی جے نیٹ ورک کے ذریعہ ہوئی ہے۔ دریں اثنا ، فرانسیسی انٹیلی جنس نے دعوی کیا ہے کہ اس کے اپنے 80 فیصد انتہا پسند کسی وقت ٹی جے کا جوبنیاد پرستوں کے داخلے کا مرکز بتایا جاتا ہے حصہ رہے ہوں گے ۔
ٹی جے سے وابستہ مغربی دہشت گردوں میں بحر اوقیانوس پار جوتا بمباررچرڈ ریڈ ، اور لندن میں ہونے والے 7/7 دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈ محمد صدیق خان شامل ہیں۔ یہاں تک کہ مبینہ طور پر ٹی جے حلقوں میں شامل ایک اردنی جہادی مبلغ اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والا ابو قتادہ بھی شامل تھا۔ اگرچہ مغرب میں ٹی جے کچھ زیادہ محتاط انداز میں کام کررہا ہے ، اس کی جنوبی ایشیا میں ٹی جے شاخوں پر نظریاتی پابندی واضح ہے۔ دراصل ، یہاں تک کہ ہندوستان اور پاکستان میں ٹی جے کی شاخوں کے مابین پھوٹ پڑ جانے کی بھی عکاسی مغربی ٹی جے نیٹ ورکس میں ہوئی۔ 2017 میں ، ٹی جے کے دو کیمپوں کے حامی لندن ٹی جے کے ایک ادارہ کے باہر ہاتھا پائی کرنے لگے۔ امریکہ میں ، ٹی جے ارااکین کو،جنہوں نے گمراہ ٹی جے دھڑے کی حمایت کی تھی ، کو بظاہر ٹی جے مساجد سے نکال دیا گیا تھا۔
یہ حیرت کی بات ہے کہ مغربی ٹی جے کے تمام اراکین ٹی جے کے ہندوستانی دھڑے کی حمایت کرنے پر راضی نہیں تھے۔ پاکستانی ٹی جے کے اداروں نے طویل عرصے سے دنیا بھر میں ٹی جے اراکین کی وفاداری کو اپنی جانب منتقل کیا ہواہے۔
ٹی جے اور پاکستانی وہابیت:
پاکستان میں جنرل ضیا الحق کی حکومت نے دیوبندی اور تبلیغی انتہا پسندوں کے کام کی حمایت کی۔ اس وقت سے تبلیغی کارکنوں نے پاکستان میں بدنام زمانہ دہشت گردی سے وابستہ جاسوس ایجنسی ، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل جیسے طاقتور عہدوں پر قبضہ سمیت پاکستان میں بااثر کردار ادا کرنا جاری رکھا ہے۔ متعدد اطلاعات میں دعوی کیا گیا ہے کہ پاکستان کے ٹی جے کیڈرس بنگلہ دیش میں اپنے ہندوستانی ہم منصبوں سے ملتے ہیں ، جہاں وہ جماعت اسلامی کے ساتھ ،جس نے بنگلہ دیش کی 1971 کی آزادی جنگ کے دوران عام شہریوں کی نسل کشی میں پاکستانی فوج کے ساتھ اتحاد کیا تھا، قریبی رابطہ کاری کے ساتھ کام کرتے ہیں ، ۔ اطلاعات کے مطابق ، ٹی جے کے پاکستانی کیڈر بنگلہ دیش کے راستے ہندوستان میں داخل ہوتے ہیں ، جہاں کچھ کا خیال ہے کہ وہ آئی ایس آئی کے مفادات کو پورا کرسکتے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ پاکستان میں ، ٹی جے کے دہشت گرد گروہوں کے ساتھ کھلے روابط ہیں۔ دہشت گرد گروہوں سے تعلق رکھنے والے اعلی سطح کے بھرتی افراد نے رائے ونڈ میں ٹی جے کیڈروں سے ملاقاتیں کی ہیں اور تبلیغیوںکو دہشت گرد گروہوں میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے۔ 1995 میں مبینہ طور پرٹی جے کے فوجی بازو جہاد بی ال سیف پر ، لزام لگایا گیا تھا کہ وہ پاکستان کی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کرنے کامنصوبہ بنا رہاہے۔
خونخوار دہشت گرد گروہ حرکت المجاہدین (ایچ او ایم) نے ، جو 1980 میں قائم ہوا تھا ، اپنے تمام بنیادی ارکان کو تبلیغی جماعت سے دور کردیا۔ 1998 میں انڈین ایئرلائن کی پرواز آئی سی 814 کو اغوا کرنے اور 2002 میں کراچی میں فرانسیسی انجینئروں کو بے دردی سے قتل کرنے کا ذمہ دار بھی ا حرکت المجاہدین ہی تھا۔ بعدازاں ، 6 ہزارتبلیغی کارکنان نے حرکت المجاہدین کے کیمپوں میں تربیت حاصل کی۔ن میں سے بہت سوں نے افغانستان میں جنگ لڑی اور سوویت یونین کی شکست کے بعد القاعدہ میں شامل ہوگئے۔ ٹی جے کا ایک اور دہشت گرد بازوحرکت الجہاد الاسلامی(حوجی ) کشمیر اور گجرات میں سرگرم ہے۔ 2002 میں ایک امریکی ثقافتی مرکز پر حملے کے ساتھ ساتھ 2004 میں اعتدال پسند عوامی لیگ کی رہنما اور اب بنگلہ دیش کے موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد پر قاتلانہ حملے کی ذمہ داری بھی حوجیپر عائدکی گئی تھی۔
مزید بر آںجب ٹی جے کے ہندوستانی کیڈر اجتماعات میں شرکت اور تبلیغ دین کے لیے چلے یا چار مہینے کے لئے پاکستان جاتے ہیں ، تو مبینہ طور پر القاعدہ ، لشکر طیبہاور حرکت المجاہدین جیسے دہشت گرد گروہ اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بلا شبہ ٹی جے کے انتہا پسندی سے زیادہ واضح رابطے ان ممالک تک ہی محدود نہیں ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کرچکے ہیں۔ الیکس الیکسیف رقمطراز ہے کہ فلپائن کی حکومت نے ٹی جے پر (جس کے اپنے ملک میں کم از کم 11 ہزار اراکین ہیں) الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے جنوب میں دہشت گردوں کے لئے سعودی عرب کی رقم کی فراہمی اور پاکستانی جہادی رضاکاروں کے کور کے طور پر کام کرتے ہیں۔ تیونس میں ، تیونیشیا کی النھذا پارٹی کے شریک بانی اور دنیا کے ممتاز اسلام پسند نظریات میں سے ایک راشد الغنوشی ،جس نے جوانی میں ہی پیرس میں ہونے والی تحریک میں شمولیت اختیار کر لی تھی، ، ٹی جے کے اکابرین میں سے ایک ہے۔ دریں اثنا الجزائر کے مسلح اسلامی گروپ (جی آئی اے) کے دہشت گرد کے تبلیغی جماعت سے قریبی تعلقات ہیں۔ ان معاملات کے حوالے سے مثالوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
ٹی جے کسی وبا سے کم نہیں ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اب کون سنجیدگی سے اسے پر امن تحریک کہہسکتا ہے؟ یقینی طور پر، کشمیر ، پاکستان اور افغانستان میں دہشت گرد گرو ہ، مغرب اور دیگر ممالک میںجہادی مبلغین اور بھرتی کنندگان کے ساتھ طویل عرصے سے تبلیغی جماعت کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اورٹی جے کی جانب سے بھی انہیں ایسا کرنے سے نہ روکا گیا اور نہ انکار کرنے کی کوئی واضح کوشش کی گئی ۔
1990 کے دہائی میں القاعدہ میں شامل ہونے والے ایک جاسوس عمر نصیری نے انکشاف کیا ہے کہ القاعدہ کے عہدیداران اپنی تنظیم میںبھرتی ہونے والوں کو پہلے ٹی جے میں میں شمولیت اختیار کرنے کا کہتے ہیں کیونکہ ٹی جے کا تبلیغی کام سفر کرنے والے جہادیوں کو تحفظ دیتا ہے۔ در حقیقت ، ذیشان صدیقی نام کا ایک برطانوی جہادی ، جو القاعدہ سے منسلک تھا ، مبینہ طور پر القاعدہ سے وابستہ افراد سے ملنے کے لئے یہ بہانہ کر کے پاکستان گیا کہ وہ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے گیا ہے ۔
ان حقائق کے باوجود ، یہاں یہ قابل ذکر ہے کہ امریکہ کے برعکس ، ٹی جے کے دہشت گرد گروہوں سے مبینہ روابط ، بنیاد پرستی اور دیگر ناجائز سرگرمیوں کی جانب نہ تو ہندوستان کی انٹیلی جنس اور نہ ہی انسداد دہشت گردی ایجنسیوں اور یہاں تک کہ صحافیوں اور دہشت گردی کے مطالعے کے ہندوستانی اسکالروں نے کوئی خاص توجہ دی۔ تبلیغی جماعت کی غیر سرکاری ، غیر سند یافتہ تجارتی ادارہ ، اس کی بھرتی کے مبہم عمل اور خاص طور پر اس کے خفیہ اور مشکوک مالی طریقوں اور اس کی سرگرمیوں کا سراغ لگانا قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مالی نگہبانوں کے لیے زبردست چیلنج ہے ۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ ، دہشت گردی سےبراہ راست روابط کے بغیر بھی ، ٹی جے نے پوری دنیا کی جماعتوں کو بنیاد پرست بنا دیا ہے۔ وہ برادریاں جو کبھیمعتدل تھیں باقاعدہ طور پر دوبارہ تعلیم کے لئے ٹی جے کا ہدف بنی رہتی ہیں۔ جیسا کہ یوگیندر سکند نے 1998 میں برطانیہ میں ٹی جے کے اپنے مطالعے میں ذکر کیا تھا ، یہ تحریک غیر مسلم معاشرے کے وسوسے اور یہاں تک کہ نفرت کے جذبات کو فروغ دینے کے لئے کام کرتی ہے۔
ٹی جے خود جنوب ایشیائی برادریوں میں بھی بالآخر صرف دیوبندی مسلک تک ہی محدود ہے۔ بی بی سی کے مطابق بہت سارے مسلمانوں کو اعتدال پسند بریلوی تحریک سے تعلق رکھنے کے باوجود ، انھیں ابھی بھی ٹی جے حلقوں میں کھینچا جارہا ہے۔ دنیا کے مسلمانوں میں خالص پرہیزگاری کے لئے ٹی جے کی ساکھ بظاہر اکثر انہیں مسلکیخطوط کو عبور کرنے کی اجازت دیتی ہے ، جبکہ اب بھی پوری دنیا میں دیوبندی مساجد کو اڈوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
ٹی جے کے ایک سابق ممبر نے بی بی سی کو بتایاکہ میں نے نوعمر لڑکوں کو دیکھا ، مسجد گیا ، گھر گیا ، اپنے کنبہ والوں کو تبلیغ کی۔ چھ ماہ بعد ، کنبہ کی ساری خواتین نقاب پہننے لگیںآپ ان کے چہرے دوبارہ نہیںدیکھ پائیں گے۔ میں نے دیکھا کہ پورا خاندان تبلیغی جماعت کی محنت سے بدل گیا۔
لیکن پھر بھی اگر کسی نے جنوب ایشیامیں جہادیوں اور انتہا پسند گروہوں کے ساتھ ٹی جے کے روابط اور تعلقات کا ثبوت کو تسلیم نہیں کرتا اور ساتھ ہی اس دستاویزی حقائق کو بھی نظرانداز کرنا ہے کہ بہت سے مغربی جہادی ٹی جے سے ہوتے ہوئے ہی آئے ہیں اور یہی نہیں بلکہ بہت سے ٹی جے ممبران نے پرتشدد نظریہ کو قبول کیا ہے ، ایک اہم نکتہ باقی رہ جاتاہے۔
بنیاد پرستی صرف تشدد کے بارے میں نہیں ہے؛ یہ بنیادی طور پر مطلق العنانیات کے گلے لگانے ، اور مسلط کرنے کے بارے میں ہے۔ ٹی جے ، شاید دنیا کے کسی بھی دوسرے بنیاد پرست فرقہ سے زیادہ وسیع پیمانے پر ، اس بے پردگی کی تبلیغ کرتا ہے اور اس پر اصرار کرتا ہے۔
ہندوستانی عوام کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ جب یہ انتہا پسند استثنیٰ کے ساتھ کام کرتے ہیں تو اگر ہندوستانی انٹلی جنس سروسز نے اس کی گرفت کرنے میں سست روی کا مظاہرہ کیاہوتا تو کیا کچھ وہ گیا ہوتا ۔ اس دوران ، مغربی انٹیلی جنس سروسز ، ٹی جے کے خطرات سے واقف تھیں اور اس کے باوجود وہ اپنے اثر و رسوخ کے مطابق کام کرنے میں ناکام رہی ، اس کے باوجود مغربی مسلمان دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے کے لئے تبلیغی جماعت کا استعمال کر کے جنوبی ایشیا کا سفر کرتے تھے۔
سخت گیر دیوبندیوں اور ان کے تبلیغیبازو ، ٹی جے کا خطرہ عالمی اور واضح ہے اوراس کا عالمی سطح پر منھ توڑ جواب دینے ، ٹی جے کی مالی اعانت ، اس کے پاکستانی اور کشمیری دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ اس کے خفیہ روابط ، اور جہادی بنیاد پرستی کے لئے اس کے افزائشی مشین کے اس کے کردار کے بارے میں بین الاقوامی تحقیقات کے لیے ہندوستان اور مغرب کے مابین تعاون کی ضرورت ہے۔

(ابھینیو پانڈیا انسداد دہشت گردی کے ماہر اور ہندوستان میں بنیاد پرستی: ایک ایکسپلوریشن کے مصنف ہیں: سام ویسٹروپ مڈل ایسٹ فورم کے پروجیکٹ اسلامسٹ واچ کے ڈائریکٹر ہیں۔)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *