اسلام آباد: افغانستان کے دارالخلافہ کابل اور ننگر ہار میں مئی میں ہونے والے دو ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملوں سے ، جس میں کم ا زکم38افراد ہلاک ہوئے ،افغانستان کے پر امن مستقبل کی کوشش کے لیے دوحہ ،قطر میں ہونے والے امریکہ ۔طالبان معاہدے میں کوتاہ نظری واضح طور پر بے نقاب ہو گئی۔ تسلسل سے دہشت گردانہ حملے ایشیا کے قلب میں واقع سب سے زیادہ شورش زدہ ممالک میں سے ایک کے شہریوں کی ایسی تقدیر بن گئے ہیں جو ایک ملک ، جس کے بارے میں کبھی یہ معلوم نہیںہو پایا کہ گذشتہ دو عشروں سے وہ افغانستان میں کیا چاہتا ہے اور اس کی اپنی کیے کی سزا طالبان نے، جن کو ملک کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا قانونی جواز کھلم کھلا دہشت گردی سے ثابت ہوتا ہے،بیک جنبش قلم سے لکھ دی گئی۔ان حملوں کی کسی کی جانب سے ذمہ داری نہ لینے سے اس حقیقت سے روگردانی نہیں کی جا سکتی یہ دونوں بھیانک خود کش حملے طالبان سے اس مفاہمت کے، کہ وہ تشدد کم کردیں گے،باوجود ہوئے ہیں۔ کوئی بھی شخص جس نے افغانستان کو قریب سے دیکھا ہے بلاشبہ اس امر سے وقف ہوگا کہ یہ حملے کس نے کیے ہوں گے۔ آخر خطہ میں اتنی زیادہ دہشت گرد تنظیمیں نہیں ہیں جو خود کش بمباروں کی تربیت اور ان کا استعمال کرتی ہیں۔
افغان قومی سلامتی مشیر حمد اللہ محب جانتے تھے کہ جب ان حملوں کے لیے انہوں نے طالبان اور ان کے آقاؤں پر الزام عائد کیا تو ان کا اشارہ کس جانب تھا۔ طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کی صلاحیت افغانستان میں موجود پاکستان حمایت یافتہ لشکر طیبہ کی شمولیت سے نکھر گئی ہے۔پاکستان نے نہ صرف اپنے پڑوسی افغانستان سے دغا بازی کی بلکہ اپنے اتحادی امریکہ کو بھی دھوکہ دیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ طالبان کی جڑیں پاکستان میں ہیں اور امریکی حملہ کے دوران انہیں دوبارہ یکجا ہونے کا موقع مل گیا۔ لیکن پاکستان طالبان کی مدد یا انہیں تحفظ دینے کی متواتر تردید کر رہا ہے۔ یورپی تھنک ٹینک نے کہا کہ مزید برآں دولت اسالمیہ فی الخراسان(آئی ایس کے پی) کے ایک کلیدی رہنما عبد اللہ اورکزئی عرف اسلم فاروقی کی گرفتاری سے بھی طالبان کے پاکستانی رابطے اظہر من الشمس ہو گئے ہیں۔
کابل گوردوارہ حملہ میں پاکستان کا رول ہونے ثابت ہو گیا ہے اور اس کی بڑھتی مایوسی اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کے عنوان سے ایک تبصرے میں یورپی فاؤنڈیشن فار ساؤتھ ایشین اسٹڈیز (ای ایف ایس اے ایس) کا کہنا ہے کہ مارچ میں کابل کے گوردوارے پر ہوئے دہشت گردانہ حملہ میں افغان سیکورٹی فورسز نے جو گرفتاریاں کی ہیں اس حملہ میں دہشت گردی کی حمایت کرنے کے لیے جانی جانے والی پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کی تصدیق ہوجاتی ہے ۔1988کی پابندیاں کمیٹی سے وابستہ اقوام متحدہ کی ایک نگران ٹیم نے ،جو طالبان پر پابندیوں کی نگرانی کرتی ہے، اپنی2019کی رپورٹ میں اعتراف کیا تھا کہ صرف کنار اور ننگر ہار صوبوں میں ہی لشکر طیبہ کے کم و بیش5ہزار دہشت گرد سرگرم ہیں۔دریں اثنا جیش محمد نے حال ہی میں کنار، ننگر ہار، پکٹیا، پروان، کندوز، نمروز، ہلمند، قندھار اور اروزگان سمیت کم و بیش12افغان صوبوں میں کمانڈروں کا تقرر کیا ہے۔
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے پر معذرت ، شہریوں اور سلامتی دستوں پر تواتر سے دہشت گردانہ حملے جاری رہنا یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ کی غلطیوں اور کئی بنیادی سوالات کی جانب متوجہ کرتے ہیں۔طالبان کے لیے کھونے کو کچھ نہیں ہے اور اپنے آقاؤں سے مدد اور محفوظ پناہ گاہ دستیاب رہنے کے باعث ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے ۔پاکستان کے لیے بھی وقت گذرنے کی دیر ہے، حالانکہ اس کے پاس کھونے کو بہت کچھ ہے۔ لیکن پاکستان نے مخصوص تعاون کی پالیسی کے توسط سے اپنی چالیں بڑی خوبصورتی سے چلیں اور امریکیوںکو ، جو طالبان کو ایک فریق تسلیم کرتے ہی بازی ہار گئے تھے، چونا لگانے میں کامیاب ہو گیا۔پاکستان کے لیے ،اتنا کچھ داؤ پر لگا تھا کہ اس کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ اپنے نمائندوں کو بھیج کر خود کو نقصان سے بچالے ۔اس امید کے ساتھ کہ مایوسی کی طویل جنگ سے امریکہ اور اس کے اتحادی یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا ہے۔ اور بات اس حد تک چلی گئی کہ کولیشن سپورٹ فنڈز کا،جو امریکہ نے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف امر یکہ کی جنگ میں تعاون کرنے پر دیا تھا سیاسی فائدے اٹھانے کے آلے کے طور پر دہشت گردی کے لیے اندھا دھند استعمال کیا گیا۔
دنیا یہ بھول سکتی ہے کہ گذشتہ طالبان حکومت میں وہ کیسی تھی لیکن افغانوں کو یاد ہے۔ وہ پاکستانی عزائم کودوسروں سے زیادہ بہتر انداز سے جانتے ہیں کیونکہ انہوں نے پاکستان کی حرکتوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور طالبان اور اس کے ضامن پاکستان کے درمیان معاہدے پر افغانستان میں کوئی جوش و خروش نہیں ہے۔