نوائل چمبر لین کی اڈولف ہٹلر کو خوش کرنے کی پالیسی یا جارج ڈبلیو بش کے عرق پر حملہ کی طرح چینی صدر شی جین پینگکو حال ہی میں خارجہ پالیسی میں ناکامی ہوئی ہے جس کا احساس ابھی انہیں نہیں ہوا ہے۔
اگرچہ ڈونالڈ ٹرمپ کے چار سالہ دور اقتدار میں شی جن پینگ کو زندگی میں پہلی بار امریکہ کو داو¿ پر لگا کر پوری دنیا پر چینی اثر و رسوخ حاصل کرنے کا بہترین موقع ملا تھا جو شاید مستقل ہو سکتا تھا۔لیکن دوست و دشمن کو یکساں طور پر ناراض کر کے، عالمی اداروں اور معاہدوں سے باہر نکل کر ، اور کورونا وائرس وبا سے نمٹنے میں ناکام ہو کر ٹرمپ نے ایک نئے لیڈر کے لیے پوری طرح سے تیار دنیا ایک نئے لیڈر کے لیے چھوڑ دی۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ چین کا وقت تھا۔
سابق سنگا پوری سفارت کار کشور مدھو بنی نے اس سال کے اوائل میں لکھا تھا ” افسوس فن سفارت کاری واشنگٹن ڈی سی میں کھو گئی۔اس سے چین کے لیے زبردست راہ کھل گئی تھی کہ وہ بعد از کوویڈ 19-دنیا پر فتح کی راہ میں اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے ۔“لیکن شی نے اسے ہاتھ سے نکل جانے دیا۔پیو ریسرچ سینٹر گلوبل سروے کے ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ چین کے تئیں رویہ نے کناڈا، جرمنی، جنوبی کوریا، اسپین ،سویڈن اور یو کے جیسے متعدد ممالک میں تاریکی پھیلا دی اور اب تک کی زندگی میں بہت نیچے چلے گئے۔خود شی بھی کچھ خاص نہ کر سکے۔
حالانکہ دنیا بجھر میں ان کی ساکھ ٹرمپ کی بہ نسبت زیادہ بہتر ہے ۔سروے میں78فیصد غیر جانبدارلوگوں نے خیال ظاہر کیا ہے کہ انہیں اس بات پر کوئی بھروسہ نہیں ہے یا ہے بھی تو بہت کم ہے کہ شی عالمی معاملات میں کچھ اچھا کر سکیں گے۔2019کی بہ نسبت اس میں 14فیصد کا زبردست اضافہ ہے۔ رپورٹ میں شامل کم و بیش تمام14ممالک کی شی کے خلاف منفی رائے ریکارڈ حد تک اعلیٰ ترین سطح پر پہنچ گئی۔
جو بیڈن جو امریکہ کے نئے صدر کی حیثیت سے مسند پر رونق افروز ہونے والے ہیں شی اپنی غلطیوں کو سمجھنے اور سدھارنے کا مقوقع کھو سکتے ہیں۔ اور دنیا پر چین کے کردار کے نتائج بہت بھاری پڑ سکتے ہیں۔ یہ المیہ اسے اجاگر کرتا ہے کہ عالمی سوپر پاور کے رول کے لیے چین کا سیاسی نظام کس قدر ناقص ہے اور میل نہیں کھاتا ہے۔بلاشبہ چین جنوری2017کے مقابلہ ،جب ٹرمپ اوول آفس میں داخل ہوئے ،آج زیادہ طاقتور ہے۔
پھربھی یہ بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ اسے مزید کتنا مضبوط اور طاقتور ہونا ہے۔ بات عالمی اثر و رسوخ کی ہو تو شی ”نرم “ طاقت کے اہمیت سے بے خبر نہیں ہیں۔انہوں نے چینیوں کو تلقین کی ہے کہ ملک کی بین الاقوامی ساکھ بنانے کی راہ کے طور پر اپنی روایات اور اقدار کو دنیا بھر میں پھیلائیں۔تاریخی اعتبار سے مشرقی ایشیا میں پائیدار چینی غلبہ ثقافتی رشتے نہایت اہم ہیں۔پھر بھی چین نے چکنی چپڑی اور میٹھی باتیں کر کے رضامند کرنے کے بجائے زور زبردست کرکے، بیران ملک اپنی شرائط تھوپ کر اور چین کے مطالبات ماننے پر مجبور کیے جانے والوں کے لیے تلخ یادیں چھوڑ کر فاش غلطی کی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ خانگی پریشانیوں سے چین کی قیادت بہت تھکی ہوئی ہے اور اندرون اور بیرون ملک اس کی حیثیت اتنی غیر محفوظ ہے کہ وہ مواقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے سفارت کاروں کو مہارت وہوشیاری اور لچکدار رویہ کے ساتھ کام کرنے دے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ چین امریکہ سے اس کا وہ رول لینے کی جدو جہد کرے گا جو گذشتہ سات عشروں سے وہ( امریکہ) ادا کر رہا ہے۔بلا شبہ انہوں نے کوشش کی ۔اب چین ایشیائی تجارتی بلاک کے مرکز پر علاقائی جامع اقتصادی شراکت کی تکمیل کے ساتھ براجمان ہے اور جب ٹرمپ نے ایشیا میں امریکی اقتصادیات کی موجودگی کو استحکام بخشنے والے ایک معاہدے ٹرانس پیسیفک پارٹنر شپ سے امریکہ کو باہر نکالا تو اس خلا کوچین نے پر کردیا۔چینی رہنماو¿ں نے خود کو زیادہ ذمہ دار عالمی شہری کے طور پر پیش کرنے کے لیے کوروناوائرس وبا سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔امریکہ کی پروپیگنڈہ مشین اس وبا سے نمٹنے میں نااہلی کی وجہ سے متواتر ٹرمپ کا مذاق اڑاتی رہی اور چین کی وائرس سے لڑنے میں کامیابی کو اس کے حکومتی نظام کو دنیا کے لیے بہترین نمونے کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی رہی ۔جہان ٹرمپ نے امریکہ کو عالمی صحت تنظیم سے باہر نکال لیاشی نے غریب ملکوں کو ویکسین مہیا کرنے کے لیے اس کے پروگرام میں شرکت کر لی۔
مجموعی طور پر یہ کاروباری کوشش ناکام ہو گئی ۔ پیو سروے کے مطابق 61فیصد غیر جانبدار لوگوں کا خیال ہے کہ اگرچہ کورونا وائرس سے نمٹنے میں چین نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے ۔لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے کہ چین نے جو کچھ بھی اچھا کیا وہ دیگر سفارتی تنازعات میں اس کے جھگڑالو رویہ کے برعکس ہے۔مئی میں لداخ میں سرحدی جھڑپ کے بعد، جس میں ہندوستان کے20فوجی مارے گئے، ہندوستان نے وی چیٹ، ٹک ٹوک، اور دیگر چینی ٹیکنیکل خدمات بند کر دیں دوسری جانب ہندوستانی عوام نے چین مخالف احتجاج کیے اور چینی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا۔ اس سال موسم گرما میں شہر کی جمہوریت حامی تحریک کو کچلنے کے لیے ہانگ کانگ پر چین کے ذریعہ قومی سلامتی قانون تھوپے جانے سے یو کے برہم ہے ۔ بورس جانس کی حکومت کا خیال ہے کہ یہ قنون نافذ کر کے سابق برطانوی نو آبادیات کو چینی حکام کے حوالے کرنے کے لیے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
ادھر کناڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ معاہدہ توڑ کر چینی حکومت نے درآمدات روک دی اور چین میںموجود ان کے شہریوںکو چین کا یرغمال بنا لیا۔ امریکہ کی درخواست پر ہواوی کے ایک ایکزیکٹیو کی اوٹاوا میں فریب دہی کے الزام میں گرفتاری پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے چین نے ایک سابق کنڈیائی سفارت کار موئیکل کوونگ کو700سے زیادہ دن تک قید رکھا۔علاوہ ازیں چین نے اس وقت کئی ہمدرد افریقی ممالک کو بھی ناراض کر دیا جب چین میں رہائش پذیر افریقیوں کے ساتھ کورونا وائرس وبا پھوٹ پڑنے کے دوران سخت تفریق آمیز سلوک کیا گیا۔
