نئی دہلی: ترکی میں ایک عدالت نے جمعرات کو تین سو سے زائد سول اور فوج سے تعلق رکھنے والے افراد کو 2016 میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش میں مدد کے الزام کے تحت عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔جن افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے ان میں شامل بعض فوجی جرنیلوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے لڑاکا طیاروں کے پائلٹس کو اہم حکومتی دفاتر بشمول پارلیمنٹ پر بمباری کی ہدایات دی تھیں۔
عدالت نے لڑاکا طیاروں کے کئی زیرِ تربیت پائلٹس کو بھی سزائیں سنائی ہیں۔ان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف اور موجودہ وزیرِ دفاع حلوصی آقار کو کئی گھنٹوں تک یرغمال بنائے رکھا۔ملزمان پر یہ بھی الزام تھا کہ انہوں نے امریکہ میں خود ساختہ جلا وطن ترک رہنما فتح اللہ گولن کے ایما پر یہ سب کچھ کیا۔ترکی کا یہ الزام رہا ہے کہ فتح اللہ گولن 2016 کی ناکام فوجی بغاوت کے مرکزی کردار تھے۔ حکام کا شبہ ہے کہ اب بھی گولن تحریک کے حمایتی نہ صرف فوج بلکہ مختلف سرکاری اداروں میں موجود ہیں۔
ترکی نے امریکہ سے مطالبہ کر رکھا ہے کہ فتح اللہ گولن کو اس کے حوالے کیا جائے۔ تاہم گولن فوجی بغاوت کی سازش کے الزامات کی سختی سے تردید کرتے رہے ہیں۔مقدمے میں شامل 70 افراد کو بری کر دیا گیا جب کہ کچھ ملزمان کو چھ سے 16 سال تک قید کی سزا سنائی گئی۔
خیال رہے کہ ترکی میں اس ناکام فوجی بغاوت کی کوشش کے دوران 250 افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔اس واقعے کے بعد ترکی میں بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن ہوا اور ایک لاکھ 30 ہزار سے زائد افراد کو سرکاری نوکریوں سے برخاست کیا گیا۔
عدالت نے بھی فیصلہ دیا ہے کہ گولن اور ان کے چار مزید ساتھی جو ترک حکام کو مطلوب ہیں کا الگ سے عدالتی ٹرائل کیا جائے۔صدر ایردوان کی ‘جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ’ پارٹی کی ڈپٹی چیئرمین لیلیٰ ساہن نے سرکاری خبر رساں ادارے ‘انادلو’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ا±ن کی پارٹی کو خوشی ہے کہ عوام کی عدالت میں پہلے سے مجرم ٹھیرائے جانے والوں کو اب عدالت نے بھی سزا سنا دی ہے۔
خیال رہے کہ 15 جولائی 2016 کی شب ترکی کی فوج کے ایک گروپ نے مبینہ طور پر صدر رجب طیب ایردوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی تھی جو ناکام رہی تھی۔ اس واقعے میں کم از کم ڈھائی سو افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔