I acted in line with the Tunisian constitution: says Kais Saeedتصویر سوشل میڈیا

تیونس: ( اے یو ایس ) تیونس کے صدر قیس سعید نے کہا ہے کہ انھوں نے دستور پر عمل درآمد کرتے ہوئے حالیہ فیصلے کیے ہیں اور انھوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے ایسا نہیں کیا ہے۔ قیس سعےد نے “جمہوریت کے احترام” کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کی گزارش کا جواب دیتے ہوئے باور کرایا ہے کہ وہ آئین کی پاسداری اور حقوق و آزادی کے تحفظ کے شدید خواہاں ہیں۔ یہ موقف پیر کی شام دونوں شخصیات کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والے رابطے میں سامنے آیا۔امریکی وزارت خارجہ کے اعلان کے مطابق تونس کے صدر نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ آئین اور اس کے تقاضوں کا احترام کریں گے۔صدر قیس سعید نے اتوار کے روز ت±ونسی آئین کی دفعہ 19 کے تحت حاصل ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے وزیر اعظم ہشام میشیشی کو برطرف کر دیا تھا اور پارلیمان کو 30 روز کے لیے معطل کر دیا تھا۔صدرقیس کے سیاسی مخالفین نے ان پر فوج سے مل کر حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام عائد کیا ہے لیکن صدر نے اس الزام کو مسترد کر دیا۔

اسلامی جماعت النہضہ کے حامیوں نے ان کے فیصلے کے خلاف پارلیمان پر دھاوا بولنے کی کوشش کی اور دار الحکومت تیونس میں دھرنا دیا۔ اسلامی جماعت النہضہ کے حامیوں نے ان کے فیصلے کے خلاف پارلیمان پر دھاوا بولنے کی کوشش کی ہے اور دارالحکومت ت±ونس میں دھرنا دیا ہے۔ت±ونسی صدر نے سوموار کو جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں عوام پرزوردیا کہ وہ پ±رامن رہیں اور کسی اشتعال انگیزی کا جواب نہ دیں۔انھوں نے کہا:”میں تیونسی عوام پر زوردوں گا کہ وہ سڑکوں پر نہیں نکلیں کیونکہ کسی قوم کو سب سے زیادہ جس خطرے کا سامنا ہوسکتا ہے، وہ اس کا اندرونی دھماکا ہی ہوسکتا ہے۔“انھوں نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے انقلاب کو لوٹ مار میں تبدیل کردیا اور عوام کی منشا کے ساتھ ڈکیتی کی گئی ہے۔صدرقیس سعید نے سوموار کی شام سات بجے سے صبح چھے بجے تک کرفیو نافذ کردیا ہے۔یہ کرفیو جمعہ 27 اگست تک نافذالعمل رہے گا اور اس دوران میں شدید بیمارمریضوں اورشب کے وقت کام کرنے والے کارکنان کے سوا کسی کو گھروں سے باہرنکلنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

صدارتی حکم کے تحت دن کے اوقات میں عوامی شاہراہوں پر یاعوامی چوکوں ، چوراہوں میں تین افراد کے اکٹھا ہونے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔امریکا نے تیونس میں رونما ہونے والے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہارکیا ہے اور ملک میں امن وامان برقرار رکھنے کی ضرورت پر زوردیا ہے۔وائٹ ہاو¿س کی خاتون ترجمان جین ساکی نے ایک نیوزبریفنگ میں کہا ہے کہ امریکا ت±ونس کی سینیرقیادت سے رابطے میں ہے۔انھوں نے کہا کہ ”ہم وائٹ ہاو¿س اور محکمہ خارجہ سے اعلیٰ سطح سے تیونیشیائی لیڈروں سے رابطے میں ہیں تاکہ ان سے ملک کی صورت حال کے بارے میں مزید جان سکیں۔ہم جمہوری اصولوں کے مطابق ت±ونس کی آگے بڑھنے کی کاوشوں کی حمایت کرتے ہیں۔“جین ساکی نے کہا کہ وائٹ ہاؤس نے ابھی یہ طے نہیں کیا ہے کہ آیا ت±ونس میں حکومت کے خلاف بغاوت برپا کی گئی ہے اوراس کا تختہ الٹا گیا ہے۔وہ امریکی محکمہ خارجہ کے قانونی تجزیے کا منتظر ہے،اس کے بعد وہ ت±ونس میں وزیراعظم کی برطرفی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے گا اور صدر کے اقدام کو کوئی نام دے گا۔مبصرین کا کہنا ہے کہ تیونس کوگذشتہ ایک عشرے کے دوران میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کے سیاسی بحران کا سامنا ہے اور صدر نے فوج کی مدد سے منتخب وزیراعظم کو چلتا کیا ہے ورنہ پہلے 2011 کے عوامی انقلاب کے بعد سے ملک میں جیسے تیسے جمہوریت کا پہیّہ چلتا رہا ہے اور دستور کے مطابق ملک میں انتقالِ اقتدار کاعمل مکمل ہوتا رہاہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *