قادر خان یوسف زئی
امریکی صدر ٹرمپ نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے اپنے قریبی رفقا (ری پبلکن) اور بلیک واٹر کے چار ٹارگٹ کلرز کو بھی معاف کردیا ۔ خصوصی اختیارات کے تحت معافیاں معمول کا حصہ ہیں ، لیکن یہاں یہ پہلو قابل غور ہے کہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کاری میں ملوث سزا یافتہ مجرمان میں، صدر ٹرمپ نے اپنے مشیر جارج پاپا ڈوپلوس،ڈچ وکیل الیکس سمیت وینڈر ژوان،مائیکل فلن اور راجر اسٹون کی سزا ئیںمعاف کی ، بلکہ عراق میں بدنام زمانہ بلیک واٹر ( پرائیوٹ ٹارگٹ کلرز کنٹریکٹرز) کی جانب سے2007میں 12زائدافراد کے قتل میں سزا یافتہ مجرموں کو بھی معاف کردیا ۔ یہ اُس وقت بھی سوالیہ نشان تھا کہ جنگ زدہ علاقے میں ٹارگٹ کلرز کنٹریکٹرز کیوں رکھے گئے اور اب بھی امریکی پالیسی پر بدستور سوال اٹھتا ہے کہ جہاں جہاں امریکا جارحیت کرتا ہے ، جنگ میں وہ پرائیوٹ ٹارگٹ کلرز کا استعمال کیوں کرتا ہے۔
بلیک واٹرکی سفاکانہ کاروائیاں جنگ زدہ علاقوں و پُرامن خطے میں بے امنی پیدا کرنا اور معاوضے کے لالچ میں اہم شخصیات یا عام شہریوں کو قتل کئے جانا ہے۔صدر ٹرمپ کی جانب سے معافی سے قبل پرائیویٹ سکیورٹی فراہم کرنے والی تحلیل شدہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کے چار محافظوں نکولس سلیٹن، ایوان لبرٹی، پال سلو اور ڈسٹن ہیرڈ کو ماتحت عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں کالعدم قرار دے دی گئی تھی۔ ایک اعلیٰ امریکی عدالت نے سزاؤں کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے ان گارڈز کے لیے نئی سزائیں سنانے کا حکم جاری کیا تھا۔عدالت نے خاص طور پر نکولس سلیٹن کو کہا تھاکہ وہ اپنے دفاع میں نئے ثبوت پیش کرے۔ نکولس سلیٹن کو عمرقید کی سزا سنائی گئی تھی۔ سلیٹن کے دیگر تین ساتھیوں کو لازمی تیس برس کی سزائیں سنائی گئی تھیں۔
امریکا خود کو دنیا میں امن کا داعی قرار دیتے ہوئے ٹھیکدار بنتا ہے کہ وہ نام نہاد واحد سپر پاور ہونے کی وجہ سے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف وزری کرے تو وہ جائز ، کسی بھی ملک میں ’پراکسی وار‘ کو سہولت کاری دے تو اُس کے نزدیک درست عمل ، کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں بلیک واٹر کو استعمال کرکے مداخلت کرنا، اس کے لئے معمولی معاملہ ہے۔ امریکا نے عراق میں بلیک واٹر کے ٹارگٹ کلرز کا بہیمانہ استعمال کیا اور جھوٹی جنگ مسلط کرنے کے علاوہ ملک بھر میں بلیک واٹر کا بھی جال بچھا یا ، بلیک واٹرنے جس کو چاہا قتل کیا ، اغوا کیا یا پھر ماورائے قانون اور عدالت جیسا بھی اقدام کیا ، وہ امریکا بہادر کے نزدیک ، درست گردانا گیا ،لیکن جب یہی عمل امریکی افواج یا عوام کے خلاف ردعمل میں دوہرایا جاتا تو اُسے دہشت گردی و انتہا پسندی سے جوڑ دیا جاتا اور مخصوص مفادات کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی اقدار کا خیال نہیں رکھا جاتا ۔
امریکا نے کئی برس پاکستان میں بھی بلیک واٹر کے ٹارگٹ کلر اپنے فروعی مفادات کے لئے استعمال کئے ، ان کے غیر قانونی دفاتر ملک کے کئی پوش علاقوں میں علاقوں میں قائم تھے ، جہاں ان کی نقل و حرکت ، من مانی اور غیر سفارتی رویے پر پوچھ گچھ کرنا ، سیکورٹی اداروں کے لئے بڑا مشکل کام بن چکا تھا ،بدنام زمانہ ریمنڈ ڈیوس کی جانب سے پاکستانی شہریوں کی ٹارگٹ کلنگ کے بعدامریکا نے پاکستانی حکومت پر جس طرح دباﺅ ڈالا اور ایک سفاک قاتل کو بچانے کے لئے جس طور جھوٹ اور دھوکا دہی کا سہارا لیا گیا ، وہ امریکی چہرے پر بد نامی کا ایک ایسا داغ ہے ، جو کئی سنگین جرائم کی سرپرستی کرنے والی مملکت کا دوہراچہرہ، بے نقاب کرتا ہے۔ خیال رہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ایرک پرنس نے بلیک واٹر کمپنی بیچ کر ایک نئی سیکیورٹی کمپنی قائم کرکے افغانستان کا کنٹریکٹ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ ارب پتی امریکی کاروباری شخصیت ایرک پرنس نے افغانستان میں امریکہ کی جنگ پرائیویٹ کمپنی کو دینے کی پیش کش کی تھی، ایرک پرنس افغانستان کی جنگ ٹھیکے پر حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ میڈیا مہمچلائی۔
ایرک پرنس نے مبینہ طور پر افغانستان کی جنگ میں 45ارب ڈالر سالانہ امریکی اخراجات کی جگہ 10ارب ڈالر اور 90 پرائیوٹ طیاروں کے ساتھ کام کرنے کی تجویز امریکا کو دی تھی۔کہا نہیں جا سکتا کہ صدر ٹرمپ نے امریکی افواج کے انخلا سے قبل بلیک واٹرز کے ٹارگٹ کلرز بھی افغانستان سمیت پاکستان میں بھیجے ہوئے ہوں ، جو کہ مخصوص معروف شخصیت کی ٹارگٹ کلنگ کے لئے خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔اہم اَمر یہ کہ امریکی صدر اپنے صدارت کے اختتامی مہینے میں جرائم میںملوث مجرموں کو معافیاں دے رہے ہیں ، ایک عام تاثر یہ بھی ہے کہ آخری دنوں میں بذاتِ خود اور اپنے خاندان کو بھی، اُن معاملات و مقدمات پر معافی لے سکتے ہیں ، جن پر صدارتی استثناءکی وجہ سے قانونی کاروائی ممکن نہیں ہوپائی تھی ، تاہم ایسے امریکی آئین پر انسانی حقوق کی تنظیموں و اقوام متحدہ کو خود غور کرنا چاہیے کہ سیاسی ہی نہیں بلکہ ٹارگٹ کلرز کو بھی امریکی صدر کے معافی دینے پر دنیا میں کہیں بھی فروعی مفادات کے لئے قتل و غارت پر سزا کا ڈر ختم ہونے کے نتائج کیا نکل سکتے ہیں۔ ہمارے لئے بھی لمحہ فکریہ ہے کہ امریکی صدر کے آئینی اختیارکا استعمال ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کیوںممکن نہیں ، جب عام شہریوں کی قاتل بلیک واٹرکے دہشت گردوں کو معافکیا جاسکتا ہے تو عافیہ صدیقی کے لئے قانونی فائدہ کیوں نہیں اٹھایا جاسکتا۔
عافیہ صدیقی خود ساختہ و جھوٹے مقدمے میں جولائی2008سے 86برس کی قید بھگت رہی ہیں ، سینیٹ کے اجلاس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے وزیراعظم کے پارلیمانی امور کے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان نے وقفہ سوالات میں بتایا تھا کہ امریکی صدر کوعافیہ صدیقی نے اپیل کی درخواست پر دستخط کردیئے ہیں، انہوں نے ’ رحم ‘ کا لفظ استعمال کیا تھا ، تاہم فوزیہ صدیقی کے مطابق انہوں نے رحم کی نہیں بلکہ امریکی قوانین کے مطابق ’کمیوٹیٹشن پارڈن‘ یعنی سزا معافی کی درخواست دی تھی۔وزیراعظم کا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے انتخابی وعدے پر ہنوز سوالیہ نشان ہیں کہ اب جب کہ عافیہ کی باقاعدہ درخواست دینے کی خود حکومت تصدیق کررہی ہے، تو صدر ٹرمپ سے اپنے ’ بہترین ‘ تعلقات استعمال کرنے میں ایسا کیا رخنہ ہے کہ انسانی ہمدردی کے نام پر بیمار ، نحیف بے ضرر خاتون کو گلو خلاصی نہیںہورہی۔ جہاں ٹارگٹ کلرز کو امریکی صدر معافی دے سکتے ہیں تو انسانی ہمدردی کی بنیاد ، یا کچھ لو کچھ دو پر ہی عافیہ صدیقی کی وطن واپسی میں کیا رکاﺅٹ حائل ہے ؟۔